Pakistan ISI Hypnotist Soldier 1

Fayaz Ali
0

Pakistan ISI Hypnotist Soldier 1

Episode: 01

تحریر : ارشد احمد

Sultnat Novel

عالیہ باجی مجھے پڑھانے ائی تھیں..


تیس سال سے زیادہ عمر تھی ان کی اور بے حد حسین..


مگر غربت نے یہ چاند گہنا دیا تھا..


بالوں میں ابھی سے اکا دکا سفید تار نظر انے لگے تھے..


چھوٹے بھائی کی پڑھائی اور نابینا ماں کی دوا..شاید بس یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا..

Sultnat Novel


زندگی کی گاڑی رواں رکھنے کے لئے اسکول میں نوکری کرتی تھیں..


ہم سے نیچے والے پورشن میں رہتی تھیں..


امی جان نے بیٹی بنایا ہوا تھا..شام میں اکر مجھے ٹویشن پڑھاتی تھیں وہ بھی بلا معاوضہ..


بھلا کپڑے سلائی کر کے زندگی کا بوجھ ڈھونے والے ماں بیٹوں سے کیا معاوضہ ملنا تھا انھیں..


میں اٹھویں کلاس میں اچکا تھا..اور فائنل امتحان سر پر تھے..


کچی ابادی میں واقع مقدس منزل کے مکین ہم غربت کے ستائے ہوئے لوگ..


یہ تین منزلہ سالخوردہ عمارت تھی...بوڑھے انکل ہاشم کی ملکیت..


نیچے وہ اور ان کی جوان بیوی مقدس رہتی تھی..انکل خود تو ساٹھ پینسٹھ سال کے تھے مگر چند سال پہلے انھوں نے اس بیوہ سے شادی کی تھی جس کا اگے پیچھے کوئی نہیں تھا..


عالیہ باجی سے کچھ بڑی مقدس انٹی کتنی مقدس تھیں میں نہیں جانتا...مگر خوش اخلاق اور ملنسار ضرور تھیں..سبزی والے سے لے کر پرچون والے تک ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش انا ہاشم انکل کو ایک انکھ نہیں بھاتا تھا..


انکل نے گھر کے ایک کمرے کو باہر کی طرف دروازہ بنا کر دکان بنایا ہوا تھا..جہاں وہ جڑی بوٹیاں اور سنیاسی نسخے بناتے رہتے تھے..


انکے پاس انے والوں میں زیادہ تر وہی لوگ ہوتے تھے جو انکل کا مشہور "شباب کامل ایٹم بم ٹھاہ" نسخہ لے کر اپنی گھریلو عورتوں پر مردانگی کا رعب ڈالتے تھے اور وہ بیچاریاں "ہائے....سرتاج...اج تے نوجوانی دی یاد اگئی" جیسے ڈائلاگ مار کر انکا بھرم رکھ لیتی تھیں..


درمیانی منزل کے دو کمروں میں عالیہ باجی رہتی تھیں اپنے سات سالہ بھائی بابر اور اماں کے ساتھ..


اور سب سے اوپری منزل پر ہم ماں بیٹا..ایک کمرہ جس میں سامان کے نام پر دو ٹوٹی چارپائیاں...پھٹے پرانے لحاف اورچادریں...پانی کا مٹکا..چند برتن...میری کتابیں کاپیاں اور امی کی سلائی مشین..یہ ہماری کل کائنات تھی..امی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ہاتھ کی مشین میں موٹر لگوا لیں تاکہ سلائی میں اسانی ہوجائے..اور ہماری اتنی بھی حیثیت نہیں تھی چند سو کی وہ موٹر خرید کر اس مشین میں فٹ کروا لیں....امی جان کے ہاتھ میں بہت صفائی تھی مگر کچی ابادی کے غریب لوگ جو سال میں ایک جوڑا بنانے کی بھی بمشکل استطاعت رکھتے ہوں...ان کی سلائی کیا اور کپڑے کیا..بمشکل میری پڑھائی اور گھر کا چولھا جل رہا تھا..


میرے بابا کون تھے...میرا خاندان کہاں ہے..ان سوالوں کے جواب میں امی جان کی انکھوں میں ہمیشہ خوف کے سائے لہرانے لگتے

..اور مجھے اپنی ماں سے عشق تھا..جو اپنی جوانی بیٹے کو پڑھا لکھا کر بڑا ادمی بنانے میں تیاگ رہی تھیں..کچی ابادی کے گورنمینٹ کے پیلے اسکول میں جہاں کل چار ماسٹر تھے اور ایک ہدہد جیسے ہیڈ ماسٹر جو سارا دن اونگھتے رہتء تھے..وہاں پڑھائی کیا اور بڑا ادمی کیا..مگر عالیہ باجی میرا حوصلہ بڑھاتی تھیں..اپنی محدود تنخواہ میں سے بھی میرے لئے ردی کے ٹھیلوں سے معلوماتی کتب خرید لاتی تھیں..میری زندگی امی جان, کتابوں اور گھر تک محدود تھی بس..رات میں دل گھبراتا تھا تو دیوار پر پائوں رکھ کر کر اکلوتے کمرے کی چھت پر چڑھ جاتا تھا اور چاند ستاروں کو تکتا رہتا تھا..


زندگی کا پہیہ بس ایسے ہی گھوم رہا تھا..میرے امتحان مکمل ہوگئے تھے اور اب دو مہینے کی چھٹیاں اور میرے محبوب مشغلہ ستاروں کو تکنا اور کتابیں پڑھنا جو میں اتنی بار پڑھ چکا تھا کہ رٹ گئی تھیں..


جب چاندنی راتیں ہوتی تھیں تو میں چھٹ پر لیٹا چاند کو سیاہ کردیتا تھا اور مجھے اس میں بہت مزہ اتا تھا..


پلکیں جھپکائے بناء چاند کو گھورتے رہنے سے کچھ دیر بعد اس کی روشنی اور چمک مانند پڑ جاتی تھی اور وہ سیاہ ہوجاتا تھا اور مجھے وہ سیاہ چاند بہت پسند تھا بالکل میری زندگی کی طرح سیاہ اور بے رنگ..


ایک طوفانی رات جب اسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور چاند کی روشنی ندارد تھی بارش ہونے لگی..میں شرٹ اتار کر صحن میں اگیا...موسم کی پہلی بارش تھی امی جان کے ڈانٹنے کے باوجود میں صحن میں نہاتا رہا..بارش کو دیکھ کر کچھ دیر میں عالیہ باجی اور بابر بھی ہماری چھت پر اگئے..عالیہ باجی نے اگرچہ دوپٹہ لیا ہوا تھا مگر تیز بارش نے انھیں بری طرح بھگو دیا تھا..عالیہ باجی ہر بات سے بے خبر منہ اسمان کی طرف کئے بارش کے قطروں سے اپنا حلق تر کر رہی تھیں...بارش تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی اور بجلی چمکنے لگی تھی..اچانک روشنی کا ایک تیز جھماکا ہوا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا بدن اگ میں جھلس گیا ہو...بس اتنا یاد ہے عالیہ باجی نے مجھے بانہوں میں لیا ہوا تھا اور چلا چلا کر میرا نام پکار رہی تھی...علی..علی...اٹھو..علی..میری نگاہوں کے سامنے سارے منظر دھندلے ہونے لگے اور میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتا چلا گیا..

جانے کتنا وقت بیہوش رہا..


حواس بیدار ہونا شروع ہوئے اور انکھ کھلی تو امی جان کا چہرہ انکھوں کے سامنے تھا..


میں نے نظر گھمائی..مقدس انٹی, ہاشم انکل سے عالیہ باجی تک سب لوگ چارپائی کے گرد نظر ائے..


مجھے پورے جسم میں تیز حرارت محسوس ہورہی تھی مگر کسی جگہ درد کی کوئی کیفیت نہیں تھی..


ہوش اگیا میرے بچے کو..امی جان نے میرا ماتھا چوم لیا..

اسی لمحے عالیہ باجی اگے جھک ائیں اور میرا چہرہ تھپتھپایا..


میری نظریں جیسے ہی انکی نظروں سے ملیں میرے سر میں جیسے اوازوں کا طوفان برپا ہوگیا..


یوں لگ رہا تھا جیسے بہت سے لوگ مل کر چیخ چلا رہے ہوں..


میرا سرشدت درد سے پھٹنے لگا..


میں نے انکھیں بند کر لیں..


حیرت انگیز طور پر انکھیں بند کرتے ہی میرے دماغ میں سناٹا چھا گیا..


جیسے ایک دم سے کسی بلب کا سوئچ اف ہوجائے..


بہن اب اسکی طبیعت بہتر لگتی ہے...ہوش اگیا ہے اسے..ضرورت پڑے تو بلا لیجئے گا..یہ ہاشم انکل کی اواز تھی..


انٹی میں بھی چلتی ہوں..امی اور بھائی کو ناشتہ دے کر پھر ائوں گی...اس بار عالیہ باجی کی اواز ائی..


ناشتہ..صبح ہوچکی ہے...میں کب سے بیہوش ہوں..مجھے رات کا منظر یاد اگیا..


میں نے انکھیں کھول دیں..


سب لوگ جاچکے تھے..


مجھے امی جان کا ممتا بھراچہرہ نظر ایا..


جیسے ہی میری انکھیں امی جان کی انکھوں سے ملیں وہی اوازوں کا ایک طوفان برپا ہوگیا..


میں نے گھبرا کر انکھیں بند کر لیں...


یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ..


انکھیں بند کرتے ہی شور ختم ہوگیا..


امی جان مجھے کیا ہوا تھا..میں نے انکھیں بند کئے سوال کیا..


اگلے ہی لمحے ماتھے پر پیار بھرا بوسہ محسوس ہوا..


کچھ نہیں بیٹا تم پریشان مت ہو..


عالیہ اور بابر بتا رہے تھے تم چند لمحوں کے لئے تیز روشنی کی زد میں اگئے تھے..


وہ کہ رہے تھے بجلی گری تھی..


مگر بجلی تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑتی..


میرا شہزادہ تو بالکل ٹھیک ہے..


تم دماغ پر زور مت دو..


میں ناشتہ بناتی ہوں اپنے بچے کے لئے..


امی جان میرے پاس سے اٹھ گئیں..


مگر ان گنت سوال میرے ذہن کے دریچوں پر دستک دینے لگے..


روشنی کا جھماکا اور اس کے بعد اپنا جسم اگ میں جھلستے میں نے نے بھی محسوس کیا تھا..


اگر وہ اسمانی بجلی تھی تو میں بچ کیسے گیا..


میرا جسم اب بھی جیسے ہلکی ہلکی انچ میں سلگ رہا تھا..


کسی سے نظریں ملانے میں دماغ میں اوازوں کا طوفان کیوں برپا ہوجاتا ہے..


یہ سب کیا ہے..


میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا..


ناشتہ کرنے کے بعد عالیہ باجی اگئیں..


میں بستر پر لیٹ گیا..عالیہ باجی کی نرم اور مہربان انگلیاں میرے بالوں میں سرسراتی رہیں.


اور میں نیند کی اغوش میں ڈوب گیا..


دن گزرنے لگے مگر اوازوں کا شور بڑھتا چلا گیا..


جونہی میں کسی سے نظریں ملاتا دماغ میں طوفان برپا ہوجاتا..


یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ اپ کسی شخص کو مخاطب کرتے اس سے بات کرتے اس کی انکھوں میں دیکھیں..


مگر میرے لئے یہ ناقابل برداشت ہوتا جارہا تھا..


میں نے عالیہ باجی اور امی جان سے بھی ڈسکس کیا..


مگر اس مسئلے کا ان کے پاس بھی کوئی حل نہیں تھا..


ناں ہی کسی کی سمجھ میں ارہا تھا ایسا کیوں ہے اور یہ سب کیا ہے..


اب میں نے سب سے نظریں ملانا چھوڑ دیں تھیں..


ہمیشہ نظر جھکا کر بات کرتا تھا..


میری کوشش ہوتی تھی کسی سے نظریں ناں ملائوں..


چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں..


میں ایک دن امی جان کے ساتھ چٹنی کوٹنے کے لئے دھنیا کاٹ رہا تھا..


چھری بے حد تیز تھی...اچانک میری انگلی پر کٹ لگ گیا اور خون نکل ایا..


کٹ گہرا تھا..امی جان جلدی سے اٹھ کر سلائی مشین کی طرف بڑھیں کہ وہاں سے کپڑے کی کترنیں لاکر زخم صاف کر سکیں اور انگلی پر پٹی باندھ سکیں..


کترنیں لے کر امی لوٹیں تو ان کی نظر میری خوفزدہ انکھوں پر پڑی..


میری نظروں کے تعاقب میں امی جان نے انگلی کی طرف نظر اٹھائی اور حیرت اور خوف سے ان کی انکھیں پھٹنے کو اگئیں..

میں نے خون صاف کرنے کے لئے انگلی کو زمین پر جھٹکا تھا..

خون تو صاف ہوگیا مگر..

میری انگلی پر کوئی زخم موجود نہیں تھا..

اسے وہم نہیں سمجھ سکتا تھا..

انگلی پر لگا خون اس بات کا ثبوت تھا کہ زخم تو لگا تھا مگر مندمل ہوگیا..

یہ کیسے ہوا کیوں ہوا ناں ہی میرے پاس اس سوال کا جواب تھا ناں ہی امی کے پاس..

میں نے اگلے دن امی سے چھپ کر انگلی پر چھوٹا سا کٹ لگایا..

درد کا احساس بھی ہوا..

کٹ گہرا نہیں تھا اس لئے ایک دو قطرے ہی خون نکلا..

چند ہی لمحوں میں وہ کٹ غائب ہوچکا تھا..

میرا زخم خودبخود بھر گیا تھا اور مندمل ہوگیا تھا..

کیسے اور کیوں...اس کا کوئی جواب کوئی توجیہ نہیں تھی..

شام کو عالیہ باجی پڑھانے ائیں..

امی جان محلے میں کسی کے گھر کپڑے دینے گئی ہوئی تھیں..

عالیہ باجی کی ڈریسنگ دیکھ کر مجھے ہمیشہ عجیب سا احساس ہوتا تھا..

ان کے پاس شاید ایک دو ہی سوٹ تھے..

وہ بھی ایسے باریک اور پرانے..

باجی..ایک بات بتائیں..میں نے انھیں مخاطب کیا..

کیا بات علی..پوچھو..

باجی کیا منہ بولے بھائی بہن ہو سکتے ہیں کیا ??

رشتہ تو بس خون کا ہوتا ہے ناں..

میں نے نظریں جھکائی ہوئی تھیں اور اسکی عادت بنا چکا تھا..

نظریں ملاتے ہی میرے دماغ میں طوفان برپا ہوجاتا تھا..

علی ایسے کیوں کہ رہے ہو..میں تمھاری بڑی بہن کی طرح ہوں..عالیہ باجی نے کہا..

بڑی بہن کی طرح ہیں ناں باجی مگر بہن تو نہیں ہیں ناں..

منہ بولی بہن سے شادی ہوسکتی ہے ناں...

تو پھر اس رشتے کی کیا حیثیت اور جواز..

یہ مت سمجھئے گا میرے دل میں کوئی برائی ہے..

میں جب اپ کو سوچتا ہوں میرے دل میں ایک بڑی بہن کی محبت اور ماں کا پیار اور شفقت محسوس ہوتی ہے..مگر میں..

عالیہ باجی نے میری بات کاٹ دی..

تم اپنی عمر سے اتنی بڑی بڑی باتیں کیوں سوچتے ہو علی..

تم ٹھیک کہ رہے ہو..

منہ بولے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی..

مگر یہ رشتے ہم اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے اپنے دل سے بناتے ہیں...

فرق بس ایک سوچ کا ہی تو ہوتا ہے سگی بہن ہو یا منہ بولی..

انسان اور جانور میں فرق صرف شعور اور سوچ کا ہے..

ہم انسان سوچ سکتے ہیں..شعور رکھتے ہیں..اچھے برے سہی غلط کی پہچان رکھتے ہیں..اگر ہم میں..

مگر باجی..میں نے ان کی بات کاٹ دی..

اچھائی اور برائی کی کیا تعریف ہے پھر..

ہوسکتا ہے ناں اپ ایک چیز کو برا سمجھتی ہوں میں اسے ناں سمجھوں..

ہمارے لئے جسم ڈھکنا اچھائی ہے اور اگر ہم اسکا خیال ناں رکھیں تو یہ فحاشی اور بے حیائی کے زمرے میں اتا ہے..

مگر انگریزوں کے لئے یہ معمول ہے تو فرق معاشرے کا ہے اچھائی برائی کے اصول ہر جگہ الگ ہیں ناں پھر تو..

علی..اللہ تعالی نے دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف مذاہب نازل کئے ہیں..

ان مذاہب نے ہمیں اچھائی, برائی اور سہی غلط میں فرق سمجھایا ہے..عالیہ باجی نے وضاحت کی..

مگر باجی ہزاروں سال پہلے انسان غاروں میں رہتا تھا..

تب جسم ڈھکنا اچھائی یا برائی کے بجائے موسم سے محفوظ رہنے کے لئے تھا..

علی..کیا ہوگیا ہے تمھیں اج..عالیہ باجی نے میرا چہرہ تھپتھپایا..

ارے کچھ نہیں بس ایسے ہی..اچھا اپ کو جادو دکھائوں رکیں..

میں اٹھ کر گیا اور چھری اٹھا لایا..

میں نے انکے سامنے بیٹھ کر انگلی پر کٹ لگایا..

ارے..پاگل ہوگئے ہو کیا..علی یہ کیا حرکت ہے..عالیہ باجی نے میرا ہاتھ تھام لیا..

اگلے ہی لمحے میرا زخم غائب ہوچکا تھا..

میں نے نظریں اٹھا کر عالیہ باجی کی طرف دیکھا..

انکی انکھوں میں حیرت اور خوف نظر ارہا تھا..

اسکے ساتھ ہی میرے دماغ میں اوازوں کا شور امڈ ایا..

میں نے فورا نظریں جھکا لیں..

یہ سب کیا ہورہا ہے باجی میرے ساتھ باجی میں نے انھیں مخاطب کیا..

تم پریشان مت ہو علی..میں نے جہاں یونیورسٹی سے پڑھا تھا..

وہاں ایک بزرگ پروفیسر تھے..

صبح ان کے پاس لے جائوں گی تمھیں..

شاید وہ کچھ بتا سکیں..

میں عالیہ باجی کی بات سن کر خاموش ہوگیا..

عالیہ باجی پڑھا کر چلی گئیں...اگلی صبح گیارہ بجے وہ تیار ہوکر اگئیں..

امی سے بات کر کے انھوں نے اجازت لی اور ہم مقدس منزل سے باہر اگئے..

مسافر رکشے میں سوار ہوکر ہم باہر بڑی سڑک پر گئے..

اسکے بعد منی بس میں سوار ہوکر اخر کار ایک جگہ اترے..

باجی نے بتایا یہ گلستان جوہر ہے..

مجھے کانٹینیٹل بیکری نظر ائی..

اس گلی میں بہت دیر پیدل چلتے گھومتے گھماتے اخر کار ہم ایک گھر کے سامنے پہنچے..

گیٹ پر پروفیسر شبیر احمد تیموری درج تھا..

یہ دو سو گز کا گھر تھا دیواروں اور دروازے کا پینٹ شاید برسوں سے نہیں کروایا گیا تھا..

بیل بجانے پر کچھ دیر میں اندر سے ایک پینسٹھ ستر سالہ بزرگ دروازے پر نمودار ہوئے..

باجی نے یونیورسٹی کے حوالے سے انھیں یاد دلایا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ اگئی..

ایک طرف ہٹ کر انھوں نے ہمیں اندر انےکا اشارہ کیا..

ہم چلتے ہوئے ان کے ڈرائنگ روم میں اگئے..

ان بزرگ نے ساری بات سن کر مجھے دیکھا اور نظریں ملانے کو کہا..

میں نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں اور ان کی انکھوں میں دیکھنے لگا..

ایک لمحے کو شور سا محسوس ہوا مگر اگلے ہی لمحے اوازوں کے بے ہنگم طوفان اور شور کی جگہ مجھے کچھ اور سنائی دینے لگا..

میں حیرت سے ان بزرگ کو دیکھتا رہ گیا..

ان بزرگ سے نظریں ملانے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اوازوں کا بے ہنگم طوفان تھما تھا..

مجھے صرف ایک اواز محسوس ہورہی تھی اور سنائی دے رہی تھی..

ان بزرگ کی اواز..

اللہ ہو..اللہ ہو..اللہ ہو..

یہ ورد تسلسل سے جاری تھا..

چند لمحوں بعد بزرگ نے نظریں ہٹائیں تو ایک دم سے سوئچ اف ہوگیا..

وہ بزرگ باجی کی طرف مڑے..

بیٹا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اپ ان کی والدہ کے ساتھ کل تشریف لائیے گا..

قصہ مختصر اگلے دن میں, عالیہ باجی اور امی جان ان کے گھر پہنچ گئے..

امی جان سے بہت شفقت سے ملے وہ اور تمام حالات و معاملات جاننے کی خواہش کی..

امی جان نے کم و بیش تمام حالات ان کے گوش گزار کر دئے..

سب کچھ سن کر وہ امی جان سے مخاطب ہوئے..

بیٹی میری کوئی اولاد نہیں ہے میں اور میری اہلیہ اتنے بڑے گھر میں اکیلے رہتے ہیں..

میں ریٹائر ہوچکا ہوں اور بینک میں سیونگ سے اچھی خاصی رقم ہر ماہ حاصل ہوجاتی ہے..

کام کرنے کے لئے ماسی اجاتی ہے اور کھانے کے لئے میرا ڈرائیور ہے جس نے خانسامہ کی ذمہ داری بھی سنبھالی ہوئی ہے..

اہلیہ علیل ہیں اور میرا زیارہ وقت مطالعے میں گزرتا ہے..

ہم تینوں حیرت سے ان بزرگ کی باتیں سن رہے تھے..

وہ اپنے حالات ہمیں کیوں بتا رہے ہیں..

مگر ادب کے تقاضے کے تحت ہم میں سے کسی نے کوئی سوال نہیں کیا..

اپ کا بیٹا بہت خاص ہے...میں اس کی وضاحت نہیں کر پائوں گا..

قدرت نے اسے کچھ غیر معمولی قوتوں سے نواز دیا ہے..

کس لئے یہ اوپر والا جانتا ہے..

میں اس بچے کی تعلیم و دیگر تمام اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لیتا ہوں..

اپ میری بیٹی کی طرح ہیں میری خواہش ہے کہ اپ یہاں ہمارے گھر منتقل ہوجائیں یہاں بہت سے کمرے خالی ہیں..

اگر اپ ارام دہ محسوس ناں کریں تو پچھلی طرف دو کمروں کا الگ سے کوارٹر ہے..

مگر بھائی صاحب..میرا مطلب ہے..اپ..امی جان کی سمجھ نہیں ارہا تھا کیا کہیں..

میں اور عالیہ باجی بھی حیران نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے..

ایسا کہاں ہوتا ہے...

ناں جان ناں پہچان پہلی ملاقات میں کون اس طرح رشتے جوڑتا ہے اور اپنے گھر میں رکھتا ہے..

میرا کوئی احسان نہیں بیٹی اس گھر میں میری بیٹی کی طرح رہو..

ہم میاں بیوی کو بھی سہارا ملے گا اور دل بھی بہل جائے گا..

وہ تو ٹھیک ہے..مگر پھر بھی..امی جان پریشان سی نظر ارہی تھیں..

میں نے اپکو بیٹی کہا ہے اور دل سے بیٹی سمجھ رہا ہوں..اپ سکون سے جائیں اور سوچ لیں..

میری خواہش ہے یہ بچہ..انھوں نے میری طرف دیکھا..اس کو سہی راستہ دکھا سکوں..اسکی تربیت کر سکوں..

ان بزرگ سے اور بہت سی باتیں ہوئیں امی جان نے سوچنے کا وقت مانگ لیا اور ہم گھر واپس اگئے..

امی جان راضی نہیں تھیں مگر عالیہ باجی اور مقدس انٹی کے سمجھانے بجھانے پر امی نیم دلی سے راضی ہوگئیں..

کیا کیوں کیسے یہ تفصیل لاحاصل ہے..

مختصر یہ کہ ہم ان بزرگ کے گھر میں بنے دو کمروں کے کوارٹر میں منتقل ہوگئے..

مقدس منزل کے مقابلے میں یہ کسی جنت سے کم نہیں تھا..

دونوں کمروں میں خوبصورت اور ارام دہ بیڈ, الگ الگ کپڑوں کی الماریاں..فرش پر ٹائلز...دروازوں کھڑکیوں پر پردے..اور ایک فریج بھی..ضرورت کی ہر شے ان دو کمروں میں میسر تھی..

امی جان نے کھانا پکانے سے لے کر باقی تمام ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں..

مجھے یقین نہیں ارہا تھا زندگی یوں بھی بدل سکتی ہے..

مگر ایسا ہوچکا تھا..مجھے اب بھی محسوس ہوتا تھا جیسے یہ خواب ہے انکھ کھلے گی تو ٹوٹ جائے گا..

ہمارے ان بزرگ کے گھر شفٹ ہونے کے دو دن بعد کی بات ہے شام کے وقت انھوں نے مجھے بلایا..

اور لے کر ایک کمرے میں اگئے..

یہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا جس میں دیواروں پر صرف لکڑی کی الماریاں تھیں جن میں دنیا جہان کی کتب سجی ہوئی تھیں..

کمرے میں ایک طرف بہت بڑی سی رائٹنگ ٹیبل تھی انھوں نے نشت سنبھال لی اور مجھے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا..

علی بیٹا..میں نہیں جانتا اس بجلی نے تمھیں کیوں نہیں جلایا ناں ہی یہ جانتا ہوں کہ تمھارے زخم کیسے خود بخود بھر جاتے ہیں..

مگر یہ قدرت کی طرف سے انعام ہے تمھارے لئے..

مگر تم اس انعام سے تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہو جب اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا سیکھ جائو..

تمھاری عمر بہت کم ہے ابھی..

میں جو کچھ سمجھائوں گا یا سکھائوں گا تمھاری عمر اور ذہنی استعداد سے بہت اوپر ہوگا جسے تم نہیں سمجھ پائو گے..

مجھے اپنی عمر کا نہیں پتہ..

میں نہیں جانتا کتنے سال اور جی سکوں..

میں چاہتا ہوں میں اپنا علم تمھیں منتقل کردوں..

یہ کتب جو اس کمرے میں موجود ہیں ان میں جو لکھا ہے اور جو میں بتائوں گا بہت الگ ہے..

میں چاہتا ہوں میں جو کچھ بتائوں تم اسے تحریر کرتے جائو اور اسے سنبھال کر رکھو..

وقت انے پر تم اس سب کو سمجھنے کے قابل بھی ہوجائو گے اور اس پر عمل کر کے اپنا راستہ بھی متعین کر سکو گے..

یہ کہ کر انھوں نے مجھے دیکھا..

میں نے اثبات میں سر ہلا دیا..

انھوں نے میز کی دراز کھول کر ایک موٹا سا رجسٹر اور پین نکال کر میری طرف بڑھا دیا..

یہ لو بس میں جو بولتا جائوں اسے تحریر کرتے رہو..

میں نے رجسٹر اور قلم تھام لیا اور ہمہ تن گوش ہوگیا..

ہماری اس کائنات کی ابتداء بگ بینگ سے ہوئی تھی..

مگر بگ بینگ کسی دھماکے کا نام نہیں ہے..

یہ نام اسے ازراہ مذاق دیا گیا تھا جو زبان زد عام ہوگیا..

سورج، چاند ، ستارے، سیارے، کہکشائیں, پہاڑ، دریا، ہمارے اجسام اور باقی تمام بے جان اور جاندار اشیاء جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ سب ایٹمز سے مل کر بنی ہیں...

ایٹمز میں میں پروٹونز اور نیوٹرونز پر مشتمل نیوکلیس ہوتا ہے جسے الیکٹرونز نے گھیرا ہوتا ہے۔...

 پروٹونز اور نیوٹرونز کوارکس اور گلواونز نام کے پارٹیکلز سے مل کر بنتے ہیں...

 عام حالات میں کوارکس اور گلواونز آپسمیں بہت مضبوطی سے بندھے ہونے کی وجہ سے الگ الگ نظر نہیں آتے...

لیکن بہت زیادہ ٹیمپریچر پر کوارکس اور گلواونز کے درمیان فورس کمزور ہو جاتی ہے اور یہ آزاد حرکت کرنے کا قابل ہو جاتے ہیں... مادے کی اس حالت کو کوارک گلواون پلازما کہا جاتا ہے...

بگ بینگ کے فوری بعد کائنات ایک بہت زیادہ گرم اور ڈینس کوارک گلواون پلازمہ کی شکل میں موجود تھی...

بگ بینگ کی ابتداء کے وقت کائنات کا درجہ حرارت اربوں کھربوں ڈگری سینٹی گریڈ تھا..

بگ بینگ کے بعد کوارک گلواونز پلازمہ سے پروٹونز اور نیوٹرونز بنے، پروٹونز اور نیوٹرونز سے ایٹمز کے نیوکلیائی وجود میں آئے اور ان نیوکلیائی نے الیکٹرونز  کے ساتھ ملکر ایٹمز کو جنم دیا..

اور ان ایٹمز سے کائنات کی ہر شے تشکیل پائی..

اسکا کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ابتدائی شکل میں انرجی یا توانائی کی صورت میں کسی ایک نقطے میں قید تھی..

نقطہ ہم سمجھانے کے لئے کہتے ہیں درحقیقت ہم نہیں جانتے وہ ایٹم سے بھی لاکھوں کروڑوں گنا چھوٹا نقطہ کیا تھا کہاں تھا کیسے پھیل کر اس کائنات کی صورت ڈھل گیا..

عام الفاظ میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ مادہ ایٹمز سے مل کر بنتا ہے اور مادے سے ہمارے جسموں سمیت کائنات کی ہر شے بنی ہے..

اور مادہ بذات خود انرجی یا توانائی ہے یعنی مادہ اور توانائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں..

میں جانتا ہوں تم بور ہورہے ہو اور تمھیں یہ سب سمجھ نہیں ارہا مگر وقت انے پر اجائے گا یہ سب سمجھنا ضروری ہے تاکہ تم ہر چیز کو بنیاد سےجان سکو..بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا..

ارے نہیں..یہ سب کچھ میرے لئے نیا ہے اور میں اسے سمجھ بھی نہیں پارہا ہوں مگر ایک دن اسے ضرور سمجھوں گا میں بالکل بور نہیں ہورہا ہوں اپ بولتے جائیں میں لکھ رہا ہوں..میں نے وضاحت کی..

وہ بزرگ دوبارہ سے بولنا شروع ہوئے..

چینی طب انسانی جسم میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو حیاتی قوت کی کمی یا رکاوٹ سے منسوب کرتا ہے..

اس حیاتی قوت کو چینی زبان میں “چی” کہا جاتا ہے جس کا انگریزی ترجمہ “لائف فورس” ہے...

یہاں یہ باور کرانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حیاتی قوت کے اس نظریے پر صرف چینی طب ہی قیاس نہیں کرتی بلکہ جاپانی، کورین، ہندوستانی اور دیگر کئی تہذیبیں بھی اس پر یقین رکھتی ہیں اور ان کے متعلقہ طبی مکتبہ فکر بھی اس ہی قوت کو بحال کر کے علاج کرتے ہیں...

 اس قوت کو جاپانی میں “کی” اور سنسکرت میں “پّرانا” یا “پرانا شکتی” کہا جاتا ہے... 

ویسے تو اس ‘کی انرجی’ کی تعریف پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن اس کے کچھ چیدہ چیدہ نکات نکالے جائیں تو سب سے پہلے اس ‘کی انرجی’ کی اقسام پر بحث کی جا سکتی ہے۔ اس کی 3 بڑی اقسام ہیں.


1) قبل از پیدائش انرجی:

جب مرد و زن کے تولیدی خلیات کا ملاپ ہوتا ہے تو مادی اشیاء کے ساتھ ساتھ ان دونوں خلیات کی انرجی بھی ملتی ہے اور ایک نئی انرجی وجود میں آتی ہے۔ اس انرجی کو قبل از پیدائش انرجی کہا جاتا ہے...

یہ انرجی نومولود کے ہر اہم عضو میں محفوظ ہوجاتی ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر اہم عضو کی اپنی قبل از پیدائش انرجی ہوتی ہے...

چونکہ یہ وراثتی انرجی ہے اس لیے یہ انرجی کتنی طاقتور ہے...

اس کا انحصار ماں باپ کی اندرونی صحت یا ان کے اجسام میں موجود انرجی کی مقدار اور معیار پر ہوتا ہے.....

اگر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی عمر رسیدہ ہیں، بیمار ہیں یا کسی اور وجہ سے ان کی اندرونی انرجی کمزور ہے تو بچے کی انرجی بھی کمزور ہوگی...

اس انرجی کے کمزور ہونے کی وجہ سے بچے میں بہت سی دماغی و جسمانی خامیاں ہو سکتی ہیں، بچہ دماغی و جسمانی طور پر کمزور ہو سکتا ہے...

اور ایسا بچہ زندگی میں بار بار مختلف بیماریوں کا شکار بنتا ہے...

اس انرجی کو بڑھانا ایک عام انسان کیلئے تقریباً ناممکن ہے کہ اس کے لیے اس موضوع پر درست اور گہری معلومات، کڑی مشقیں اور محنت درکار ہے...

 اس لیے انرجی کی مشقوں میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ ہم کیسے اس انرجی کو بہت احتیاط سے تھوڑا تھوڑا استعمال کریں...

کیونکہ چینی طب کے مطابق جب یہ انرجی ختم ہوجائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔

 

2) بعد از پیدائش انرجی:

بعد از پیدائش انرجی وہ انرجی ہے جو انسان ہوا اور خوراک سے حاصل کرتا ہے... 

ہمارے پھیپڑوں کا ایک اور مقصد ہوا سے انرجی کشید کرنا بھی ہے... 

اسی طرح خوراک سے بھی یہ ‘کی’ انرجی حاصل ہوتی ہے...... 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہمارے جسمانی اعضاء خودکار طرز پر ہوا اور خوراک میں سے انرجی کشید کرنے پر معمور ہیں تو ہمارا معیارِ زندگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہونے کے بجائے گرتا کیوں چلا جاتا ہے؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان جسم اور دماغ مخصوص کیفیات میں ہی ہوا سے انرجی کشید کر پاتا ہے...

جب ہمارا ذہن مختلف پریشانیوں میں گھرا ہوا ہو، خیالات منتشر ہوں اور ہم اپنی دماغی قوتیں بیک وقت بے شمار گھتیاں سلجھانے میں صرف کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں ہم انرجی حاصل کرنے کے بجائے اسے تباہ کر رہے ہوتے ہیں...

اسی طرح جب ہم خالص اور قدرتی غذا کے بجائے اوٹ پٹانگ اشیا سے پیٹ بھرتے ہیں تو غذا سے حاصل ہونے والی انرجی کا راستہ بھی بند ہوجاتا ہے...

ایسی صورت میں جب ہم ہوا اور غذا دونوں ہی سے انرجی حاصل نہیں کر پا رہے ہوتے تو نیند ہی انرجی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ رہ جاتا ہے...

جس میں انسان سوچوں سے آزاد ہوتا ہے، جسم ڈھیلا ڈھالا چھوڑا ہوا ہوتا اور سانس دھیرے دھیرے اور سینے کے بجائے پیٹ سے لیا جا رہا ہوتا ہے مگر صرف نیند ہماری انرجی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی....

خاص کر جب ہمارا رہن سہن، ذہنی و قلبی اضطراب، ماحول کی آلودگی، آلودہ غذائیں وغیرہ 24 گھنٹے نہ صرف انرجی خرچ کر رہی ہوں بلکہ تباہ بھی کر رہی ہوں...

اب جب بعد از پیدائش انرجی انسانی جسم کیلئے ناکافی ہوتی ہے تو اس صورت میں جسم ضروریات پوری کرنے کیلئے قبل از پیدائش انرجی خرچ کرنی شروع کردیتا ہے... جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ جسم اور ہر عضو کی مخصوص انرجی ہے جسے دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے... 

جب ہم اسے بے دردی سے خرچ کرنے لگ جاتے ہیں تو ہمارے ہر ہر عضو کی کارکردگی متاثر ہوتی چلی جاتی ہے، بیماریاں کثرت سے حملے کرنے لگتی ہیں اور بڑھاپا جلد طاری ہوجاتا ہے۔...


3) جِنگ:-

اس انرجی کی تیسری قسم ‘جِنگ’ ہے ج پر زبر نہیں زیر ہے.... 

یہ بھی ‘کی یا چی’ انرجی کی ہی ایک قسم ہے مگر اسے انرجی کی خالص اور بھرپور قسم کہا جا سکتا ہے...

جب جسم میں ‘کی انرجی’ بالکل خالص اور زیادہ مقدار میں ہو تو یہ انرجی ایک دوسرے سے جڑ کر انرجی کے بڑے جتھے بنا لیتی ہے، اسی کو جنگ کہا جاتا ہے...

اسے حاصل کرنے کیلئے انرجی بڑھانے کی بہت سی مشقیں کی جاتی ہیں...

جب ‘کی انرجی’ ‘جنگ’ کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اسے اپنے جسم سے دوسروں کے جسم کے میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے، خواہ علاج کی غرض سے کیا جائے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے...

اکثر چینی فلموں میں دکھایا جاتا ہے نوجوان ہیرو سخت اور تیز جسمانی مشقوں میں مشغول ہوتا ہے جبکہ اس کا استاد پرسکون قسم کی رقص نما مشقیں دھیرے دھیرے کر رہا ہوتا ہے...

درحقیقت نوجوان کو ‘کنگ فو’ کرتا دکھایا جا رہا ہوتا ہے اور استاد کو ‘تائی چی, بہت سے لوگوں نے شاید تائی-چی کا نام سنا ہو...

یہ ایک قسم کا مارشل آرٹ ہے جو ‘کی انرجی’ بنانے اور پھر اسے استعمال کرنے کے گن سکھاتا ہے...

بدقسمتی سے تائی چی کا اصل علم بھی دنیا میں بہت کم اساتذہ کے پاس ہے...

میرے خیال میں اج کے لئے اتنا کافی ہے بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا..

کل میں چکراز کے بارے میں بتائوں گا جو انرجی پوائنٹس جسم میں ہوتے ہیں اور انھیں ہم ایکٹو کر سکتے ہیں...کوئی سوال ہو تو پوچھو..

جو کچھ اپ نے اج لکھوایا یہ تو میرے اوپر سے گزر گیا میں نے مسکراتے ہوئے کہا..شاید بڑا ہوکر یہ سب سمجھ سکوں..مگر میرے کچھ سوال ہیں..

ہاں بالکل پوچھو جو سوال بھی ذہن میں ائے بزرگ نے کہا..

میرا پہلا سوال یہ ہے کہ یہ انرجی, چکراز اور اس سب کے بارے میں جاننا میرے لئے کیوں ضروری ہے اوردوسرا سوال یہ کہ لوگوں سے نظریں ملانے میں جو شور میرے دماغ میں گونجتا ہے وہ کیا ہے..میں نے ان بزرگ سے پوچھا..

یہ سب جاننا اس لئے ضروری ہے کہ اگے میں تمھیں اس سب کی مشقیں بھی بتائوں گا جنھیں استعمال کر کے تم تم بہت انوکھے اور خاص انسان بن جائو گے...

کیونکہ قدرت نے تمھیں ایک انوکھی اور خاص طاقت دی ہے جس کی مدد سے تم کسی کی بھی انکھوں میں جھانک کر اسکے خیالات پڑھ سکتے ہو اور انھیں کنٹرول کر سکتے ہو..

اس طاقت کا نام ہے " ٹیلی پیتھی".....

بزرگ نے بات مکمل کر کے میری طرف دیکھا..

اور میری انکھیں حیرت سے کھل گئیں..


مگر یہ کیسے ممکن ہے..میں کیسے کسی کے خیالات پڑھ سکتا ہوں..کیسے کسی کے دماغ کو خیالات کو کنٹرول کر سکتا ہوں میں نے حیرانگی سے پوچھا..

بیٹا یہ دوسروں سے نظریں ملانے سے جو تمھیں اپنے دماغ میں شور محسوس ہوتا ہے یہ خیالات ہیں جو اگلے شخص کے دماغ میں موجود ہوتے ہیں.

مشقوں کے ذریعے تم ان خیالات کو سننا اور کنٹرول کرنا سیکھ جائو گے...

میری بات تمھیں تب سمجھ ائے گی جب پریکٹیکل کروائوں گا..

اب تم جائو ہر روز شام پانچ بجے میرے پاس اجایا کرو..

جب تھیوری مکمل لکھوا دوں گا تو تمھیں مشقیں کروائوں گا..

بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا..

میں کچھ سمجھی نا سمجھی کے عالم میں سر ہلاتا ہوا اٹھ گیا اور سلام کر کے اپنے کوارٹر میں اگیا..

مجھے جلد از جلد مشقوں کا انتظار تھا اور پریکٹیکل کی جستجو..

مگر یہ میرے اختیار میں نہیں تھا..وہ بزرگ جب چاہتے یہ تب ہی ممکن ہوپاتا..

اس کا حل میں نے سوچا کلاس لمبی لوں تاکہ جلد از جلد تھیوری مکمل ہوجائے..

رات میں سوتے ہوئے بھی وہی سب باتیں دماغ میں گونجتی رہیں..

اگرچہ میں اکثر چیزیں سمجھ نہیں پایا تھا..

مگر مجھ میں جلد از جلد سمجھنے اور جاننے کی جستجو بیدار ہوچکی تھی..

اگلی شام پانچ سے پہلے ہی میں لائبریری پہنچ گیا..

سلام دعا حال احوال کے بعد انھوں نے دراز سے رجسٹر اور پین نکال کر میری طرف بڑھایا جو انھوں نے کل مجھ سے لے کر رکھ لیا تھا..

میں لکھنے کے لئے تیار ہوگیا..

کل میں نے انرجی کے بارے میں بتایا تھا کہ ہوا اور غذا سے ہمیں ایک خاص قسم کی 'کی انرجی' حاصل ہوتی ہے...

مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انرجی محفوظ کہاں ہوتی ہے؟ انسانی جسم میں 7 مراکز ایسے ہیں جنہیں 'چاکرا' کہا جاتا ہے...

یہ ایک سنسکرت لفظ ہے جس کا اردو میں مطلب بنتا ہے 'پہیہ'... 

یہ چاکرا انرجی محفوظ بھی کرتے ہیں، جسم اور جسم سے باہر انرجی کی ترسیل بھی کرتے ہیں یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں.....

 اگر یہ چاکرا مکمل طور پر بیدار اور توازن میں ہوں...

یعنی کائناتی انرجی سے ہم آہنگ ہوں تو یہ 24 گھنٹے کائناتی انرجی کیچ کرتے رہتے ہیں...

اور اسے ہمارے جسم میں محفوظ کرتے رہتے ہیں...

اسی طرح اگر ہم اپنے چاکراز کو کائناتی انرجی سے ہم آہنگ کر لیں...

تو کائنات کے مثبت چیزیں خودبخود ہماری طرف بہنے لگتی ہیں...

مثال کے طور سکون، عزت، شہرت، کامیابی، صحت، قسمت میں لکھی ہوئی اچھی چیزیں...

اب میں مختصر چاکراز کے بارے میں وضاحت کرتا ہوں تم بس لکھتے جائو بزرگ مجھ سے مخاطب ہوئے اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا..


1۔ کراؤن چاکرا:-

 اس کے نام کراؤن یعنی کہ تاج سے اس کا مقام صاف ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سر پر موجود ہوتا ہے اور اس کا رنگ بنفشئی ہے..

جو شخص اپنا یہ سینٹر بیدار کر لے وہ شعور، آگاہی اور احساس کو پا لیتا ہے...


2۔ تیسری آنکھ کا چاکرا:-

یہ ماتھے پر دونوں بھنوں کے درمیان موجود ہوتا ہے اور اس کا رنگ اودا یا گہرا نیلا ہے...

یہ مرکز بہت سی روحانی  اور دماغی قوتوں کو تسخیر کرنے میں مدد دیتا ہے...ا

س کو بیدار کرنے سے انسان غیرمرئی قوتوں اور مخلوقات سے متعارف ہوتا ہے...

بسا اوقات دوسروں کی سوچ کو پڑھ پاتا ہے اور کسی جگہ پر جنات وغیرہ کی موجودگی ہو تو انہیں دیکھ لیتا ہے..جادو کے اثرات ختم کر سکتا ہے...

مختصراً کہا جائے تو یہ  چاکرا انسان کی دماغی قوت کو بیحد بڑھا دیتا ہے...


3۔ گلے کا چاکرا:-

یہ گلے میں گلہڑ کے قریب موجود ہوتا ہے اور اس کا رنگ ہلکا نیلا ہے...

یہ انسان کی تخلیقی و مواصلاتی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے اور خود اظہاری کو بہتر بناتا ہے...

سچ بولنے اور سچ سننے کا شوق پیدا کرتا ہے...


4۔ دل کا چاکرا:-

یہ سینے کے عین درمیان موجود ہوتا ہے اور اس کا رنگ ہرا یا گلابی ہے...

یہ انسان کو محبت، دوسروں کو برداشت کرنے کی صلاحیت اور مختلف جذبات پر قابو رکھنا سکھاتا ہے...


5۔ شمسی ضفیرہ کا چاکرا:-

شمسی ضفیرہ ناف سے ذرا سا اوپر موجود ہوتا ہے اور اس کا رنگ پیلا ہے....

یہ رشتوں کو بہتر طور پر نبھانا، خوش رہنا، ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنا اور اپنی ذات میں طاقتور محسوس کرنا سکھانا ہے...


6۔ سیکرل چاکرا:-

یہ چاکرا ناف کے دو یا تین انگل نیچے موجود ہے اور اس کا رنگ نارجی ہے۔...

اسے انسانی جسم کی قوت کا گھر، قوت کا سمندر، روح کے غار اور اسی طرح کے مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے.......

کیونکہ یہ اہم ترین مرکز ہے اور جسم کی اضافی انرجی بھی یہیں جمع ہوتی ہے۔ زیادہ تر انرجی سسٹمز میں سب سے پہلے اسی کو بیدار کرنا سکھایا جاتا ہے اور یہ اپنے اندر تمام چاکراز کی تھوڑی بہت خصوصیات رکھتا ہے۔


7۔ جڑ کا چاکرا:-

یہ ریڑھ کی بالکل آخری ہڈی یعنی مقعد کی ہڈی پر موجود ہوتا ہے اور اس کا رنگ سرخ ہے...

اس کو بیدار کرنے پر انسان زمین کی انرجی سے ربط قائم کر لیتا ہے اور زمین سے انرجی جذب کرنے کے قابل ہوجاتا ہے...

میں اب ان کو بیدار کرنے کا طریقہ اور مشقیں بعد میں بتائوں گا...

تمھارے لئے اس وقت زیادہ ضروری ارتکاز اور توجہ ہے جب تک تم ارتکار نہیں کرسکو گے دوسروں کے خیالات نہیں جان سکو گے...

اج کے لئے اتنا سبق کافی ہے..کل سے میں تمھیں ارتکاز کے مشق اور اسکے فوائد بتائوں گا..

کوئی سوال ہے تو پوچھ لو..بزرگ نے اپنی بات مکمل کی..


نہیں بس اپکی اجازت ہو تو یہ رجسٹر ساتھ لے جائوں..

کوئی سوال ہوا تو کل پوچھ لوں گا..

ہاں بالکل لے جائو کل لیتے انا اور سنبھال کر رکھنا اسے..بزرگ نے تاکید کی..

اپ بالکل فکر مت کریں..میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور سلام کر کے وہاں سے نکل ایا..

مجھے اب کل کا انتظار تھا جب باقاعدہ مشق شروع ہوگی...

Read More.....


Reed About Telepathy & Hypnotism 

Post a Comment

0Comments

Write here your review about post.

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !