Pakistan ISI Hypnotist Soldier 3

Fayaz Ali
0

Pakistan  ISI  Hypnotist Soldier 3

Episode: 03

تحریر : ارشد احمد


مجھے خطرے کا احساس ہوا..


عالیہ باجی کے ساتھ برسوں وقت گزرا تھا وہ اج تک کبھی بے قابو نہیں ہوئی تھیں..


انکی زندگی میں لاتعداد مرد ائے تھے اوراب بھی تھے.. 


صرف طلب سے مجبور ہوکر وہ میرے کمرے میں نہیں اسکتی تھیں..


میں نے تنویمی عمل کے دوران یہ جان لیا تھا کہ انکے دل میں برسوں سے میرے لئے محبت ہے..


شاید ان کی نظر میں محبت کے اظہار کا یہی طریقہ ہوگا..

Pakistan ISI Hypnotist Soldier


میرے دماغ میں یہ تمام خیالات چل رہے تھے اچانک جیسے دماغ میں بجلی سی کوند گئی..


میں نے تنویمی عمل کے دوران عالیہ باجی کو معمول بنا کر حکم دیا تھا مجھ سے کچھ ناں چھپائیں ہر بات شئیر کیا کریں..


یقینا...یقینا اسی ہدایت کے زیر اثر وہ اپنے دلی جذبات چھپا نہیں پائیں تھیں..


عالیہ باجی یقینی طور پر تنویمی عمل کے زیر اثر تھیں اور اپنے دلی جذبات کے زیر اثر میرے کمرے تک چلی ائی تھیں...


میں نے دل کو ٹٹول کر دیکھا کیا عالیہ باجی جنھیں میں باجی کہتا ہوں..


میری تنہائیوں کی رفیق بن سکتی تھیں..


مان لیا منہ بولی بہن صرف ایک اخلاقی رشتہ یا تعلق ہوتا ہے..


اکثر کزن ساری زندگی بھائی کہتی ہیں اور اخر میں شادی کر کے بیوی بن جاتی ہیں..


وہ میرے سامنے بستر پر اکر بیٹھ چکی تھیں اور میں انکی انکھوں میں دیکھ کر انھیں اپنی جگہ ساکت رہنے پر مجبور کر رہا تھا..


میں جانتا تھا ایک بار کوئی شخص اگر اپ کا معمول بن جائے تو دوسری بار معمول بننا نہایت اسان ہوجاتا ہے..


میرے دل و دماغ میں جنگ جاری تھی..


اخرکار جذبات پر عقل غالب اگئی اور میں نے انھیں دوبارہ تنویمی عمل سے معمول بنانے کے لئے بستر پر لیٹنے کا حکم دیا..


تنویمی عمل کے لئے دو چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں..


ایک انکھیں جن میں مقناطیسی اثر ہو جو اگلے شخص کو جکڑ لے اور دوسرا اواز جس میں نرمی اور ملائمت کے ساتھ گھن گھرج ہو...


بھاری اور گھمبیر اواز تنویمی عمل میں بہت اہمیت کی حامل ہے..


میں نے حتی الامکان اواز کو گھمبیر بنا کر اور نظروں سے جکڑ کر لیٹنے کا حکم دیا..


اور انھیں معمول بنا کر اپنے لئے ان کے جذبات کا رخ موڑ دیا..


مجھے کسی کا ڈر نہیں تھا ناں ہی میں گناہ ثواب کے فلسفے کے زیر اثر یہ سب کر رہا تھا..


مگر ہر انسان میں ایک اخلاقیات اور ضمیر ہوتا ہے جسکے زندہ ہونے سے زندگی کا احساس قائم رہتا ہے..


میں اپنے ضمیر کو مردہ نہیں کرنا چاہتا تھا ناں ہی کسی عورت کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا..


میں نے انھیں تنویمی عمل کے ذریعے حکم دیا کہ میرے کمرے میں انے سے لے کر معمول بننے تک کی ہر بات بھول جائیں..


اور ادھا گھنٹا سوجائیں جب انکھ کھلے تو اٹھ کر اپنے کمرے میں جاکر سوجائیں صبح نیند پوری کر کے اٹھیں تو ہر بات بھول جائیں سوائے اس کے کہ میرے لئے دل میں صرف بہن کے جذبات قائم رکھیں..


ہدایات دے کر میں بستر سے اٹھ گیا اور کرسی پر اکر بیٹھ گیا..


مجھے ادھا گھنٹا گزرنے کا انتظار تھا جب تنویمی نیند پوری کر کے وہ کمرے سے واپس چلی جاتیں..


میں اپنے خیالات میں الجھتا رہا اور سوچوں میں گم رہا..


ادھا گھنٹا گزرنے کے بعد عالیہ باجی بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک معمول کی طرح چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں..


میں انکے جانے کے بعد بستر پر اگیا اور گہرے سانس لے کر یوگا کی مشقوں کو استعمال کر کے خود کو پرسکون کیا..


اسکے بعد میں دماغ کو صبح پانچ بجے اٹھنے کی ہدایت دے کر سوگیا..


خیال خوانی میں ناکامی کے باوجود سانس, یوگا, شمع بینی و دیگر مشقیں میرا ہر روز کا معمول تھیں..


رات کے کسی پہر اچانک مجھے بے چینی کا احساس ہوا..


میں کسی برفیلی وادی میں تھا جہاں چاروں طرف برف ہی برف تھی..


سردی سے کانپتا ہوا میں اگے بڑھتا چلاجارہا تھا..


میرے دماغ میں کسی کی اواز گونج رہی تھی جو مجھے اپنی طرف بلارہی تھی..


اچانک میرے سامنے ایک برفانی غار اگیا اور اسکے دہانے پر میں نے کسی شخص کو دیکھا..


سفید چولہ نما لباس میں وہ اس غار کے دہانے سے چند فٹ اوپر فضاء میں معلق تھا..


اسکے سر کے بال بھنویں اور سینے تک لمبی داڑھی برف ہی کی طرح سفید تھی..


وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے انکھیں بند کئے ہوئے تھا..


میں چلتا ہوا اس کے پاس پہنچ چکا تھا اور سر اٹھائے اسے فضاء میں معلق دیکھ رہا تھا اچانک اس نے انکھیں کھول دیں..


وہ انکھیں جیسے کسی نیزے کی طرح میری انکھوں میں پیوست ہوگئیں..


وہ انکھیں نہیں جیسے دہکتے ہوئے انگارے تھے جنھوں نے مجھے پل بھر میں جیسے اندر تک جلا کر راکھ کردیا تھا..


اسکی انکھوں سے نکلنے والی اگ میرے اندر بھرتی جارہی تھی..


میں نے نظریں ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا..


میری انکھیں میرے دل و دماغ جسم و جاں جیسے جہنم کی دہکتی ہوئی اگ میں ڈال دئے گئے ہوں..


میں نے اذیت سے چیخنے چلانے کی کوشش کی مگر میری اواز جیسے سینے میں گھٹ کر رہ گئی..


اچانک میری انکھ کھل گئی میری نظر دیوارگیر گھڑی کی طرف گئی جو پانچ بجا رہی تھی..


میرا جسم پسینے سے شرابور تھا اور دل کی دھڑکن جیسے قابو سے باہر ہورہی تھی..


مگر سب سے حیرت انگیز اور انوکھی بات یہ تھی کہ میری انکھیں اور جسم جیسے کسی اگ میں جل رہے ہوں..


وہ خواب تھا یا کوئی اگہی اگر خواب تھا تو روح تک اتری ہوئی یہ اگ یہ جلن یہ حدت کیوں محسوس ہورہی تھی..


بہت دیر کے بعد میں خود کو پرسکون کر پایا..


میں نے نہا دھو کر معمول کے مطابق مشقیں کیں مگر ذہن سے اس خواب کو جھٹک نہیں پایا..


دن گزرتے رہے مگر میں اس خواب کو ذہن سے نہیں نکال پایا..


انھی دنوں امی جان شدید بیمار ہوگئیں میں نے تمام ڈاکٹرز کو دکھا لیا ہر قسم کے ٹیسٹ کروا لئے سب کچھ نارمل تھا مگر امی جان کی صحت دن بہ دن گرتی جارہی تھی..


ایک رات میں امی جان کے کمرے میں ان کے پائوں دبا رہا تھا انھوں نے اٹھنے کی کوشش کی میں نے سہارا دے کر مسہری سے ٹیک لگا کر انھیں بٹھا دیا..


امی جان نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر اپنی انکھوں پر لگائے..


علی مجھے لگتا ہے میں زیادہ وقت زندہ نہیں رہ سکوں گی...


میں نے کچھ کہنا چاہا مگر امی جان نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دئے..


تم پوچھتے تھے تمھارا باپ کون ہے خاندان کہاں ہے..


میں چاہتی ہوں مرنے سے پہلے تم سب کچھ جان لو جو اج تک میرے سینے میں دفن ہے..


امی جان ایسی باتیں مت کریں اللہ پاک میری زندگی بھی اپ کو لگا دے مگر میں جاننا چاہتا ہوں میرا باپ کون تھا کہاں تھا میرا باقی خاندان کہاں ہے..


ہاں اج میں ان سب سوالوں کے جواب دوں گی میرے بیٹے تمھارا باپ بوژتان قبیلے کا سردار تھا..


تمھارا قبیلہ اسکردو سے کئی میل اگے برف پوش پہاڑوں میں اباد ہے جو اس جدید دور میں بھی مہذب دنیا اور معاشرے سے کوسوں دور ہیں..


میرے ذہن میں جیسے جھماکا سا ہوا اور مجھے اپنا خواب یار اگیا...


اس خواب کا حقیقت سے کوئی تعلق تھا یا صرف خواب تھا..


امی جان میری سوچوں سے بے خبر اپنے ماضی میں کھوئی ہوئی تھیں..


بیٹا تمھارے باپ کے قبیلے تک پہنچنے کا راستہ اتنا دشوار گزار اور مشکل ہے کہ مہذب دنیا کے لوگ اج تک وہاں نہیں پہنچ پائے..


وہاں تک پہنچنے کے لئے عمودی برف پوش چٹانیں ہیں سینکڑوں فٹ گہری کھائیاں ہیں..


ان چٹانوں کے دامن میں وہ قبیلہ اباد ہے..


ان چٹانوں کے درمیان کوئی پہنچ بھی جائے تو بھی وہ قبیلے تک نہیں پہنچ سکتا..


وہ قبیلہ زیر زمین اباد ہے..


ان چٹانوں کے درمیان سے زیر زمین جانے کے خفیہ راستے ہیں..


زمین سے بیسیوں فٹ نیچے غاروں کے طویل سلسلے ہیں جہاں وہ اباد ہیں..


سردار کی مرضی اور اجازت کے بناء کوئی شخص وہاں سے باہر نہیں نکل سکتا ناں ہی اندر داخل ہوسکتا ہے..


تمھارے دادا کے دو بیٹے تھے ایک تمھارا باپ اور دوسرا ان کا چھوٹا بھائی..


دادا کی وفات کے بعد سرداری بڑے بیٹے کو منتقل ہوتی ہے مگر تمھارا چچا تمھارے باپ کو ختم کر کے قبیلے کا سردار بننا چاہتا تھا..


اپنی فطری رحمدلی اور نرم مزاجی کی وجہ سے تمھارے چچا کے الہ کار اپنی سازشوں کے جال بن رہے تھے..


دوسری طرف تمھاری پیدائش قریب تھی..


تمھارے پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی ایک دن تمھارے باپ کے ایک جانثار نے انھیں بتایا..


کہ ان کا بھائی اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ حملہ کر کے اپ کو ختم کرنے ارہا ہے..


اس کی بات سچ نکلی اور زیر زمین برف پوش غاروں میں خون کی ہولی کھیلی جانے لگی..


تمھارے باپ نے اپنے دو جانثاروں کے ساتھ مجھے اور تمھیں خفیہ راستے سے باہر نکال دیا..


ہفتوں سردی اور راستے کی مشقتوں سے لڑتے لڑتے ایک جانثار زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا...


میں دوسرے جانثار  کے ساتھ ابادی تک پہنچنے میں کامیاب رہی..


ایک شہر سے دوسرے شہر چھپتے چھپاتے بھاگتے ہوئے زندگی گزرتی رہی..


امی جان جب سرداری پر چچا نے قبضہ کر لیا تو پھر انھیں اپ کی تلاش کیوں ہوگی..


امی جان نے اپنے گلے میں پہنا ایک موٹا سا تعویز اتار کر میری طرف بڑھایا اسے کھولو..


وہ چمڑے کا تعویز تھا جو چاروں طرف سے سلا ہوا تھا..


میں اٹھ کر چھری لے کر ایا اور سلائی کاٹ دی..


اندر کوئی چیز مومی کوغذ میں لپٹی ہوئی تھی..


میں نے اسے کھولا تو ایک انگوٹھی میری گود میں گر پڑی..


میں نے اسے اٹھا کر امی جان کی طرف دیکھا..


امی جان نے وہ انگوٹھی میرے ہاتھ سے لے کر میری انگلی میں پہنا دی..


اس انگوٹھی کے لئے وہ لوگ اج بھی مجھے تلاش کر رہے ہونگے علی..


یہ سینکڑوں سال سے سرداری کی مہر ہے جو قبیلے کے ہر سردار کے لئے لازمی ہے..


اس مہر والی انگوٹھی کے بناء نائب سردار کی حیثیت سے قبیلے کی ذمہ داریاں تو سنبھالی جا سکتی ہیں..


مگر سرداری کے مقام پر پر کوئی شخص فائز نہیں ہوسکتا..


جب میں قبیلے سے نکلنے لگی تھی تو تمھارے باپ نے یہ امانت مجھے سونپ دی تھی..


میں نے اج تک اپنی جان سے بڑھ کر اس کی حفاظت کی ہے..


اب یہ امانت حقدار تک پہنچ گئی ہے اب میں سکون سے مر سکوں گی..


امی جان کیا دنیا میں صرف میرے دو ہی رشتے تھے بابا اور چچا بس..


نہیں تمھارے دادا دادی وفات پا چکے تھے مگر تمھارے بابا کی بہنیں اور پورا ننھیال وہیں ہے اور مجھے یقین ہے ان میں سے بہت سے لوگ زندہ ہوں گے..


تمھارے بابا کے جانثار کے ساتھ شہر شہر بھٹکتی میں لاہور اگئی تھی..


میرے پاس سونے کے کچھ ٹکڑے تھے جو تمھارے بابا نے مجھے دئے تھے..


ایک دن میں نے وہ سونا اس جانثار کے حوالے کیا تاکہ وہ اسےبیچ کر رقم حاصل کر سکے..


وہ گیا اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں ایا اس سونے یا رقم کی لالچ میں شاید کسی نے اسکی جان لے لی ہو..


امی جان یہ بھی ہوسکتا ہے وہ خود لالچ میں اگیا ہو..


نہیں بیٹا اس نے ہر قدم پر مجھے بہن کا مان دیا تھا اور سردار کی امانت کی جان سے بڑھ کر حفاظت کی تھی..


اس کے غائب ہونے میں قبیلے والوں کا ہاتھ ناں ہو یہ سوچ کر میں لاہور بھی نہیں رکی اور کراچی اگئی..


یہاں میں نے جس طرح زندگی گزاری ہے وہ سب تمھارے سامنے ہے..


میں ایک دن اپنے قبیلے میں جائوں گا امی جان..


میرا دل ڈرتا ہے بیٹا پتہ نہیں قبیلے کے کیا حالات ہوں..


جو بھی حالات ہوں ہو سکتا ہے بابا ابھی زندہ ہوں امی جان مجھے وہاں ضرور جانا چاہئے میرا سارا خاندان وہاں ہے..


اس دن امی جان نے قبیلے اور میرے خاندان کے بارے میں اور بہت سی باتیں بتائیں ہم دیر تک ماضی میں گم رہے..


شاید امی جان نے موت کے قدموں کی اہٹ سن لی تھی کچھ لوگ شاید حساس ہوتے ہیں وقت سے پہلے جان لیتے ہیں..


اس رات کی صبح میرے لئے موت کا پیغام لائی امی جان مجھ سے بچھڑ گئی تھیں..


میرا دنیا میں واحد سہارا میرا سب کچھ..


ماں کے بناء دنیا کیسی ہوگی کبھی سوچا بھی نہیں تھا..


کئی دن کھانا پینا تک بھول گیا ناں اپنا ہوش رہا ناں ہی اپنے ارد گرد کا..


عالیہ باجی ہی مجھے سنبھالتی تھیں میری ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں..


اہستہ اہستہ میں زندگی کی طرف لوٹنے لگا..


میرا خیال تھا میں نے عالیہ باجی پر تنویمی عمل کیا ہے وہ پائیدار ہوگا..


مگر یہ میری غلطی تھی اول تو تنویمی عمل کا اثر چند دن سے زیادہ نہیں رہتا..


کوئی عامل کامل ہو تو تنویمی عمل کا اثر مہینے تک رہ سکتا ہے جب کہ میرا تو زندگی کا پہلا تجربہ تھا..


عالیہ باجی تنویمی عمل کے اثر سے نکل چکی تھیں مگر میں یہ بات نہیں جانتا تھا..


گھر کا اور میرا  خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا میں نے عالیہ باجی کی نوکری چھڑوا دی اب اس کی ضرورت بھی نہیں تھی..


ہم نے ایک میاں بیوی کو ملازم رکھا ہوا تھا...


بیوی گھر کا کام, کھانا پکانا اور صفائی ستھرائی پر  کرتی تھی..


جب کہ اس کا شوہر باہر کے معاملات اور چوکیداری پر مامور تھا..


ان کا دنیا میں کوئی نہیں تھا ناں ہی کوئی رشتے دار تھا ناں اولاد..


ہم نے انھیں گھر کے پچھلے حصے میں دو کمروں کا کوارٹر دیا ہوا تھا جس میں وہ رہائش پزیر تھے..


عورت کی عمر پینتیس سال کے قریب تھی اور چوکیدار چالیس کے اس پاس کا ادھیڑ عمر مگر صحت مند شخص تھا..


یہ لوگ پروفیسر صاحب جنھیں میں بابا کہتا تھا ان کے وقت سے ساتھ تھے تو میں بھی ان پر انکھ بند کر کے بھروسہ کرتا تھا..


ایک رات میں کھانا کھا کر معمول کے مطابق سویا ہوا تھا کہ میری انکھ کھل گئی..


میں نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا جگ اٹھایا تو وہ خالی تھا شاید عالیہ باجی پانی رکھنا بھول گئی تھیں..


میرے کمرے میں نائٹ بلب روشن تھا میں اٹھا اور پانی لینے کے لئے کمرے سے باہر اگیا..


عالیہ باجی کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اچانک مجھے کمرے سے عجیب سی اوازیں اتی سنائی دیں..


میں رک گیا اور دروازہ بجانے کے لئے ہاتھ اٹھایا مگر یہ سوچ کر رک گیا کہ شاید باجی سو رہی ہوں تو نیند سے اٹھ جائیں گی..


میں نے جھک کر دروازے کے کی ہول سے اندر جھانکا اور اپنی جگہ سن رہ گیا..


عالیہ باجی اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کے لئے چوکیدار کو چن لیا تھا... 


غصے اور افسوس سے میرا دماغ کھولنے لگ گیا...


میں نے پوری طاقت سے دروازے کو لات ماری اور دروازہ کھلتے ہی میں اندر داخل ہوگیا..


میرے اندر داخل ہوتے ہی دونوں کا رنگ اڑ گیا..


میں غصے سے بھرا ہوا ان کے پاس پہنچا اور چوکیدار کا گریبان پکڑ کر اس کے منہ پر زوردار تھپڑ لگائے..


اسکے بعد میں پلٹا اور میرا زوردار تھپڑ ان کے منہ پر پڑا اور وہ پیچھے بیڈ پر جا گریں..


میں عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی تو توہین سمجھتا ہوں..


مگر اپ نے خود کو عورت کے درجے سے بہت نیچے گرا لیا ہے ..

دفعہ ہوجائو یہاں سے میں نے چوکیدار کی طرف دیکھا وہ سر جھکائے باہر نکل گیا..


میں عالیہ باجی کی طرف مڑ گیا..


اپ میں ذرہ بھر شرم حیاء اور غیرت بھی نہیں ہے..


عالیہ باجی تن کر میرے سامنے کھڑی ہوگئیں..


ہاں میں ایسی ہی ہوں یہ میری لائف ہے میں اپنی مرضی کی مالک ہوں تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے..


میں نے ان کی انکھوں میں انکھیں ڈالیں مگر انھوں نے نظریں پھیر لیں..


میں جانتی ہوں تم تنویمی عمل کر کے مجھے اپنےبس میں کر سکتے ہو..

تو پھر میری طرف سے جہاں چاہیں دفعہ ہوجائیں مگر اس گھر میں اپ کو میری مرضی سے رہنا ہوگا..

میں تھوکتی ہوں تمھارے گھر پر مجھے ناں کوئی کمی ہے ناں ہی تمھاری ضرورت..


میں یہ گھر چھوڑ رہی ہوں میری طرف سے تم بھی جہنم میں جائو..


میرا دل چاہ رہا تھا ایک اور تھپڑ انکے منہ پر رسید کردوں مگر میں نے خود کو سنبھالا..


احسان ہوگا اپ کا دفعہ ہوجائیں میرے گھر سے اپ یہ کہ کر میں ان کے کمرے سے نکل گیا..


غصے سے میرا دماغ بری طرح کھول رہا تھا..


بجائے غلطی تسلیم کرنے اور شرمندہ ہونے کے عالیہ باجی میرے سامنے کھڑی ہوگئیں تھیں..


اتنی گھٹیا باتیں اور حرکتیں مجھے اب تک یقین نہیں ارہا تھا..


میں واپس اکر بستر پر لیٹ گیا اور سانس کی مشقوں سے اپنے دماغ کو پرسکون کرنے لگا..


فی الحال میں کچھ سوچنا نہیں چاہ رہا تھا جو ہوتا صبح دیکھا جاتا...


کچھ دیر میں سارے خیالات دماغ سے نکل چکے تھے..


میں گہری نیند سویا ہوا تھا میری انکھ اسی خواب سے کھلی..


وہی برفانی علاقہ, غار کے اوپر معلق وہ بوڑھا اور اس کی مجھے اپنے پاس بلاتی ہوئی انکھیں..


بہت دنوں بعد یہ خوب دوبارہ نظر ایا تھا میں اسے صرف خواب سمجھنے کو تیار نہیں تھا..


میں نے گھڑی میں وقت دیکھا گیارہ بج رہے تھے..


میں ہر روز رات کو دماغ کو صبح اٹھنے کی ہدایت دے کر سوتا تھا مگر اج بھول گیا تھا 


یا شاید رات والے واقعے کے زیر اثر میں نے اس پر دھیان نہیں دیا..


نتیجتا صبح کی مشق رہ گئی تھی..


مجھے حیرانگی ہوئی ہر روز عالیہ باجی صبح ناشتہ بناتی تھیں اج میں نہیں اٹھا تو وہ بھی نہیں ائیں..


یقینی بات ہے رات کے جھگڑے پر ناراض ہونگی..


میں اٹھ کر باتھ روم گیا اور نہا دھو کر فریش ہوکر کمرے سے باہر اگیا..


میں چلتا ہوا عالیہ باجی کے کمرے کے دروازے تک پہنچا..


متضاد خیالات دماغ میں ارہے تھے...


میں نے دل بڑا کر کے دروازے پر دستک دی تو وہ کھلا ہوا تھا..


میں کمرے میں داخل ہوا تو دل دھک سے رہ گیا..


عالیہ باجی کا کوئی سامان کمرے میں نہیں تھا ناں ہی وہ موجود تھیں..


کیا واقعی انھوں نے گھر چھوڑ دیا تھا...میں تیزی سے چلتا ہوا باہر کی طرف ایا..


گیٹ پرچوکیدار بھی موجود نہیں تھا..


میں گھر کی پچھلی طرف چوکیدار کے کوارٹر کی طرف بڑھ گیا..


خوفناک اور جادوئی کہانیاں 


میں چوکیدار کے کوارٹر پہنچا اور دروازہ بجایا..


دروازہ کھلا ہوا تھا میں نے دروزے کو دھکا دے کر کھولا..


اندر کوئی نہیں تھا ناں چوکیدار اور اس کی بیوی ناں ہی سامان..


عالیہ باجی اور چوکیدار اور اس کی بیوی گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے..


میں واپس ایا اور کچن سے چائے بنا کر اور ڈبل روٹی لے کر ناشتہ کرنے لگا..


میں اکیلا رہ گیا تھا اتنی بڑی دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں تھا..


کیا میں نے عالیہ باجی کو نکال کر غلط کیا میں نے اپنے دل سے سوال کیا..


نہیں..ایک مظبوط جواب مجھے اندر سے ملا..یہی ان کے اور میرے حق میں بہتر تھا شاید..


عالیہ باجی کو سوچتے ہوئے گزرے وقت کے لمحات مجھے یاد انے لگے..


بچپن سے جوانی تک کےمناظر ایک فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے اورمٹتے رہے..


شاید سچ ہے رشتہ صرف خون کا ہوتا ہے زبان سے کہے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی..


میں بری طرح الجھ رہا تھا..

میں اٹھ کر واش روم میں اگیا شاور کے سامنے کھڑا ہوگیا..


جانے کتنی دیرٹھنڈے پانی کی پھواریں جسم پر پڑتی رہیں اور اہستہ اہستہ میرے اندر کا غصہ اور اگ سرد ہونے لگی..


گھر میں کوئی نہیں تھا میں نہا کر کمرے میں اگیا اور جسم خشک کر کے بستر پر دراز ہوگیا..


زندگی عجیب سی ہوگئی تھی جیسے جمود سا طاری ہو ہر چیز پر..


عالیہ باجی کا خیال دماغ سے نکال کر..


میں اپنی ائندہ زندگی کے بارے میں سوچنے لگا..


ایک طرف میں ابھی تک ٹیلی پیتھی کے علم سے محروم تھا اور دوسری طرف میرا قبیلہ..


یہاں کراچی جیسے رنگوں اور روشنیوں کے شہر میں میرے لئے کوئی کشش نہیں تھی..


زندگی بے مقصد گزر رہی تھی یا شاید میں گزار رہا تھا..


میں سوچتا رہا اور اپنے خیالات میں الجھتا رہا..


اخرکار میں نے اپنے قبیلے جانے کا فیصلہ کیا..


میں جانتا تھا یہ ایک دشورگزار سفر ہوگا جس میں میری واپسی کا پتہ نہیں تھا کہ واپس بھی اپاتا یا نہیں..


اور واپس اتا بھی تو کس کے لئے یہاں میرا کون ہے جس کے لئے واپسی کا سوچتا..


میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور الماری سے چیک بک نکالی اور گھر سے نکل کر بینک کی طرف چل پڑا..


سفر کے لئے مجھے پیسوں کی ضرورت تھی..


میں نے بینک سے پانچ لاکھ نکلوائے اور باہر اگیا..


میرا ارادہ تھا کہ کپڑے جوتے و دیگر سامان خرید لوں گا اور باقی پیسے اپنے پاس محفوظ رکھوں گا جانے کیا حالات پیش ائیں..


میں بینک سے نکل کر کچھ دور ہی چلا تھا کہ دو موٹرسائیکل پر سوار چار لوگوں نے مجھے دائیں بائیں اکر روک لیا..


ایک دونوں موٹرسائیکلوں سے ایک ایک شخص نیچے اترا جن کے ہاتھ میں پسٹل تھے..


نکال پیسے جو بینک سے لایا ہے ایک نے پسٹل میری طرف تان کر کہا..


دوسرا شخص نے پسٹل الٹے ہاتھ میں تھام کر میری جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا..


میں اس وقت جوہر چورنگی سے سمامہ جانے والے روڈ پر فٹ پاتھ پر تھا..


ٹریفک اجارہی تھی لوگ دیکھ بھی رہے ہونگے مگر کسی نے رکنے کی زحمت نہیں کی..


چند لمحے سوچنے میں اور سچویشن سمجھنے میں گزرے..


میں شاید مزاحمت ناں کرتا پیسے دے دیتا مگر اسی وقت جس شخص نے پسٹل الٹے ہاتھ میں تھاما ہوا تھا ایک زور دار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کردیا..


میرا دماغ بھک سے اڑ گیا نتائج کی پرواہ کئے بغیر میں نے اس کے پسٹل پر ہاتھ ڈال دیا..


میں پسٹل چھیننے میں کامیاب ہوگیا مگر اسی وقت دوسرے شخص نے گولی چلادی..


میرے کندھے میں جیسے کسی نے جلتی ہوئی سلاخ گھسیڑ دی ہو..


کندھے سے بھل بھل خون بہ کر میری شرٹ کو رنگین کرنے لگا..


میں نے اتنی دیر میں پسٹل تھام کر فائرنگ کردی..


مگر میرے ہاتھ سیدھا کرنے فائر کرنے میں جو دو چار لمحوں کا وقت تھا..


اتنی دیر میں کئی گولیاں میرے جسم میں دھنس گئیں اور میں زمین پر گرنے لگا..


مگر گرتے گرتے بھی میں نے دونوں کو گولیوں سے بھون دیا..


دونوں موٹرسائیکل سوار فرار ہوچکے تھے..


جو دو نیچے اترے تھے اس وقت زمین پر لہو لہان پڑے تڑپ رہے تھے..


یہ اخری منظر تھا جو میں نے دیکھا اس کے بعد میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا..


جانے کتنی دیر تک میں بیہوش رہا..

انکھ کھلی تو میں نے خود کو کسی کمرے میں پایا..

میں نے نظریں گھما کر دائیں بائیں دیکھا..

یہ شاید کسی ہسپتال کا پرائیویٹ کمرہ تھا..

اس کی تصدیق کمرے میں پھیلی دوائوں اور فینائل کی خوشبو سے ہورہی تھی..

اور میرے جسم پر ہسپتال کا مخصوص سفید لباس تھا..

اہستہ اہستہ مجھے یاد انے لگا میں پیسے نکلوا کر بینک سے نکلا تھا اور ڈکیتوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر بیہوش ہوگیا تھا..

میرے نے جسم ٹٹول کر دیکھا کسی قسم کے زخم کا کوئی نشان نہیں تھا ناں ہی کسی قسم کا درد مجھے محسوس ہورہا تھا..

میں اٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھا تو ہلکی سی کمزوری کا احساس ہوا..

مجھے بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک گلاب چہرہ اندر داخل ہوا..

گورے رنگ, گالوں سے چھلکتی لالی اور لبوں پر حسین مسکان..

شاید وہ کوئی ڈاکٹر یا نرس تھی..

وہ لہراتی ہوئی میرے پاس اکر کھڑی ہوگئی..

اپ کو ہوش اگیا مسٹر علی..

میں نے حیرانگی سے اسے دیکھا..

اپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا اور میں اس وقت کہاں ہوں..

اپ ہسپتال میں ہیں اور کچھ لوگ اپ کے ہوش میں انے کے منتظر ہیں..

اپ کے سب سوالوں کے جواب انھی سے ملیں گے..

اپ جسم میں کسی قسم کا درد یا تکلیف محسوس کر رہے ہیں..

نہیں میں بالکل نارمل ہوں بس کمزوری کا احساس ہے معمولی سا..

ہاں خون ضائع ہونے کی وجہ سے وقتی کمزوری ہے دور ہوجائے گی فکر مت کریں..

اس نے گلے میں لٹکے اسٹیتھوسکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی اور بلڈ پریشر وغیرہ کی ریڈنگ سائیڈ ٹیبل پر موجود چارٹ میں درج کیں اورمجھے انتظار کرنے کا کہ کر کمرے سے نکل گئی..

کچھ ہی دیر میں دوبارہ دروازہ کھلا اور ایک لمبا تڑنگا شخص کمرے میں داخل ہوا اسکے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا جو اس نے میری طرف بڑھا دیا..

مسٹر علی اپ کپڑے تبدیل کر لیں اپ کے جو کپڑے اتارے گئے تھے ان کپڑوں کے ناپ کے حساب سے یہ منگوائے گئے ہیں امید ہے ناپ درست ہوگا..

اپ کون میں نے سوال کیا..

میں ان نون ہوں اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری..

میں جانتا ہوں اپ کے ذہن میں بہت سے سوالات ابھر رہے ہونگے..

میری درخواست ہے اپ کپڑے تبدیل کر کے ہمارے ساتھ چلیں اپ دوستوں میں ہیں..

میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا اور اٹھ کر کمرے میں موجود واش روم کی طرف بڑھ گیا..

کپڑے تبدیل کر کے میں باہر ایا تو اس شخص نے مجھے اپنے ساتھ انے کا اشارہ کیا..

یہ کسی ہسپتال کی راہداری تھی شاید مگر عجیب بات تھی کہیں کوئی شخص نظر نہیں ارہا تھا ناں کوئی ڈاکٹر یا نرس ناں ہی مریض..

میں اس ان نون کے پیچھے چلتا ہوا ایک لفٹ تک پہنچا..

لفٹ میں داخل ہوکر اس نے پانچویں منزل کا بٹن دبایا..

مگر حیرت انگیز طور پر یہ بٹن گرائونڈ فلور کے بٹن سے نیچے تھا..

لفٹ میں لگے بٹنوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ اوپری تین منزلیں تھیں اور شاید زمین کے نیچے یہ پانچ منزلہ تھا..

میری سمجھ میں نہیں ایا یہ کیسے ممکن تھا مگر ان نون سے پوچھنا بےکار تھا میں جانتا تھا جواب نہیں ملے گا اس لئے میں خاموش رہا..

کچھ دیر میں لفٹ رکی اور ہم باہر اگئے..

لفٹ سے نکلتے ہیں ہم ڈائریکٹ ایک ہال میں پہنچ گئے..

یہ تیس چالیں فٹ لمبا اور پندرہ بیس فٹ چوڑا ہال تھا جو مکمل خالی تھا..

اس ہال کے اخری کونے پر ایک جہازی سائز کی میز کے پیچھے تین لوگ بیٹھے تھے..

ان نون مجھے لے کر چلتا ہوا اس میز تک پہنچا اوروہاں پہنچ کر اس نے فوجی انداز میں سیلوٹ کیا..

میں نے حیرانگی سے اسے اور ان تینوں کو دیکھا..

سب لوگ سادہ لباس میں تھے مگر ان کے بالوں کی تراش سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کا تعلق کسی سیکورٹی ادارے سے ہے..

اپ جا سکتے ہیں درمیانی کرسی پر موجود ایک ادھیڑ عمر شخص نے میرے ساتھ انے والے کو مخاطب کر کے کہا..

اس نے سیلوٹ کیا اور واپس پلٹ کر لفٹ کی طرف بڑھ گیا..

تشریف رکھئے مسٹر علی اسی ادھیڑ عمر نے مجھے مخاطب ہوکر کہا..

اسکے دائیں بائیں کی کرسیوں پر جو لوگ موجود تھے اندازا ان کی عمریں تیس بتیس کے اس پاس ہونگی..

میں اسکی بات سن کر کرسی پر بیٹھ گیا..

ادھیڑ عمر شخص کے سامنے ایک نیلے رنگ کی فائل پڑی تھی..

میرے بیٹھتے ہی اس نے وہ فائل کھول لی..

مسٹر علی..اپ کا بچپن مقدس منزل میں گزرا..

اپکی والدہ کپڑے سلائی کر کے گزر بسر کرتی رہیں..

عالیہ نامی ایک لڑکی سے اپ کی انسیت تھی جو باقاعدہ پڑھاتی تھی اپ کو..

اسی کے حوالے سے اپ اور اپکی والدہ پروفیسر شبیر احمد تیموری کے گھر منتقل ہوئے..

میں حیرانگی سے اس ادھیڑ عمر کو دیکھتا رہا وہ میری زندگی کو میرے سامنے دوہرا رہا تھا..

کس نے انھیں یہ ساری معلومات دیں..

وہ مستقل بول رہا تھا مگر میں دماغی طور پر حاضر نہیں تھا..

یہ سب کیا ہورہا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا..

اب اخری اطلاعات کے مطابق اپ پروفیسر والے گھر میں اکیلے ہیں..

اور بینک سے نکلتے ہوئے اپ ڈکیتی کی واردات میں زخمی ہوکر یہاں پہنچ گئے ہیں..

شاید اس ادھیڑ عمر نے اپنی بات مکمل کر لی تھی یا فائل میں موجود معلومات ختم ہوگئی تھیں..

میں دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوگیا..

گولیاں لگنے کے بعد اپ بیہوش ہوگئے تھے..

اپ کو کچھ لوگوں نے پولیس کی معیت میں ہسپتال پہنچایا تھا..

ہسپتال میں یہ عقدہ کھلا کہ اپ کے جسم پر گولی کا یا زخم کا کوئی نشان نہیں ہے جبکہ اپکے کپڑے خون میں لت پت تھے اور ان میں گولیوں کے چار سوراخ تھے..

اپ کے ایکسرے وغیرہ سے پتہ چلا کہ تین گولیاں اپ کے جسم سے ار پار ہوگئیں مگر ٹانگ میں ایک گولی اب تک موجود ہے..

سر..میں نے کچھ کہنا چاہا..

مسٹر علی میری بات مکمل ہوجانے دیں پلیز..

میں خاموش ہوگیا..

 یہ ایک حیرت انگیز معاملہ تھا جس کی خبر مختلف جگہوں سے ہوتی ہوئی ملٹری انٹیلیجینس اور پھر ان سے ہم تک پہنچی..

ہم نے اپ کو اپنے پرائویٹ ہسپتال شفٹ کر دیا..

جب اپ کی ٹانگ سے گولی نکالنے کا اپریشن شروع ہوا تو ڈاکٹرز کے لئے میڈیکل ہسٹری کا ایک انوکھا اور ناقابل یقین کیس سامنے ایا..

کٹ لگاتے ہی اپ کے گوشت کے ٹشوز خودبخود واپس جڑ جاتے تھے..

اپ کا جسم پرفیکٹ سیلف ریپئرنگ کر رہا تھا جب کہ میڈیکل پوائنٹ اف ویو سے یہ ناممکن بات تھی..

کافی مشکلات کے بعد گولی اپ کے جسم سے نکال دی گئی..

اور اب اپ ہوش میں اکر ہمارے سامنے ہیں..

اپ کی زندگی کے کچھ پہلو ہماری نظر میں نہیں ہیں..

اپ کا باپ کون تھا یہ خصوصیت اپ میں کیسے پیدا ہوئی پروفیسر تیموری اپ کو مقدس منزل سے اپبے گھر رکھنے پر کیوں راضی ہوئے..

میں نے گہری سانس لے کر تینوں کو دیکھا..

کیا میں جان سکتا ہوں میں کہاں ہوں اور  اپ لوگ کون ہیں??

"مارخور" سانپوں کے شکاری..

ادھیڑ عمر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا..

میں بے یقینی سے انھیں دیکھنے لگا..

بہت معذرت خواہ ہوں مجھے یقین نہیں ارہا..

مجھ جیسے بے حیثیت شخص سے بھلا مارخوروں کو کیا دلچسپی..

اجائے گا یقین ادھیڑ عمر نے مسکراتے ہوئے کہا..

اپ کو بتایا جا چکا ہے اپ دوستوں میں ہیں..

ہمیں اپ کی اس خصوصیت کے بارے میں تجسس بھی ہے اور ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں..

اپ پلیز پہلے ہماری باتوں کا جواب دیں اسکے بعد اپ کی مکمل تسلی کروا دی جائے گی..

مجھے سمجھ نہیں ارہی تھی میں انھیں کس حد تک رازدار بنائوں..

میرے خون کے ہر قطرے میں وطن سے محبت اور وفا ہے..

میرے جسم کا ہر زرہ اس وطن پاک کی امانت ہے جسے اس وطن کو سونپنے میں میرے دل میں کوئی دو رائے نہیں..

مگر میں ازاد زندگی گزارنا چاہتا تھا..

یہ میرے وطن کے وہ محافظ تھے جن کے نام سے سپرپاورز بھی تھراتی ہیں..

کیا ان سے اپنے معاملات اور زندگی کے راز شئیر کرلوں..

اخرکار میں نے فیصلہ کر کے بولنا شروع کیا..

میں اپنے باپ کو نہیں جانتا میری والدہ کے مطابق ان کا تعلق ایک ایسے قبیلے سے ہے جو مہذب دنیا سے دور ہے..

اس قبیلے کا سردار میرا باپ تھا اور سرداری پر قبضہ کرنے کے لئے جب میرے چچا نے بغاوت کی تو میرے باپ نے امی جان کو وہاں سے نکال دیا تھا تاکہ ہم ماں بیٹا محفوظ رہیں..

بچپن میں بارش میں نہاتے ہوئے مجھ پر اسمانی بجلی گری تھی..

اس واقعے کے بعد مجھ میں یہ تبدیلی واقع ہوئی اس سے پہلے میرا جسم بالکل نارمل تھا..

اسی خصوصیت کی وجہ سے پروفیسر نے مجھے اپنایا اور اپنے گھر میں رکھا اور..

یعنی اپ یہ کہ رہے ہیں اسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے اپ میں یہ تبدیلی ائی ہے ادھیڑ عمر نے میری بات کاٹ کر کہا..

جی ہاں اس بات کی گواہ عالیہ ہیں جنھیں میں بہن کہتا ہوں..

میں ادھیڑ عمر کی طرف متوجہ ہوا..

میرا خیال ہے میں نے اپنے بارے میں اپ کو تفصیل بتا دی ہے..

اب اپ مجھے بتائیں اپ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں..

ادھیڑ عمر نے اپنے دونوں ساتھیوں کو ایک نظر دیکھا..

میں تمھاری رپورٹ اوپر بھیج دوں گا حتمی فیصلہ وہیں ہوگا..

مگر ہم چاہتے ہیں کہ تم وطن کی خدمت کرنے میں ہمارا ساتھ دو..

میں اپنے قبیلے جانا چاہتا ہوں اور دوسری بات میں ازادانہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں..

میں اپ کا ساتھ دے سکتا ہوں مگر پابند ہو کر نوکری کر کے زندگی گزارنا میرے لئے ممکن نہیں ہوگا..

ادھیڑ عمر کے چہرے پر ایک لمحے کے لئے ناگواری نظر ائی مگر فورا اس نے اپنے تاثرات پر قابو پا لیا..

ٹھیک ہے جب تک تمھارے بارے میں فیصلہ نہیں ہوجاتا تم ہمارے مہمان ہو یہ کہ کر اس نے میز پر پڑا گھنٹی نما بٹن دبایا..

چند ہی لمحوں میں وہی ان نون حاضر تھا جو مجھے یہاں لے کر ایا تھا..

میں سمجھ گیا تھا میں جہاں اور جن لوگوں میں موجود ہوں یہاں مجھے وہی کرنا پڑے گا جس کا حکم ملے گا..

یہ بات میرے مزاج کے خلاف تھی مگر میں مصلحتا خاموش ہوگیا..

لفٹ اور راہداری سے ہوتے ہوئے ہم واپس اسی کمرے میں پہنچ گئے جہاں مجھے ہوش ایا تھا..

ان نون نے سختی سے مجھے کمرے تک محدود رہنے کی تاکید کی اور باہر چلا گیا..

کچھ دیر میں ایک نرس ائی جس کے ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے تھی..

میں نے کھانا کھایا اور برتن سائیڈ ٹیبل پر رکھ دئیے..

اچانک مجھ پر نیند حاوی ہونے لگی..

شاید کھانے میں کچھ ملا ہوا تھا..

میں نے خود کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر میرا ذہن ڈولتا ہوا نیند کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا..

جانے کتنا وقت گزر گیا میری انکھ کھلی تو میں نے خود کو بستر پر پایا..

اہستہ اہستہ مجھے گزرے واقعات یاد انے لگے..

مسٹر ان نون سے ملاقات پھر ہال میں تین لوگوں سے ملاقات اور اسکے بعد کھانا کھا کر نیند میں ڈوب جانا..

اچانک میری نظر سامنے پڑی میری انکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں میں جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا..

میں اپنے گھر میں اپنے کمرے میں تھا..

ہسپتال سے یہاں تک کیسے پہنچ گیا کون لے کر ایا..

میں سوچ میں پڑ گیا..

کیا میری باتوں سے ان لوگوں نے کوئی منفی تاثر لیا ہے..

میں نے انکار نہیں کیا تھا صرف ازادی سے کام کرنے کی اجازت طلب کی تھی..

شاید یہ ان کی پالیسی کے خلاف ہو..

یو شاید کوئی اور بات ہو..

میں نے فیصلہ کر لیا اگر میں نے ٹیلی پیتھی کا علم حاصل کر لیا تو وطن کے کام ضرور ائوں گا..

اچانک میری نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑی وہاں ایک پیکٹ رکھا ہوا تھا..

میں نے اسے اٹھایا اور کھول کر دیکھا تو اس میں نوٹوں کی گڈیاں تھیں..

میں نے نوٹ گنے پورے پانچ لاکھ تھے..

یقینا میرے مہربانوں نے ہی مجھے یہاں تک پہنچایا تھا اور پیسے بھی انھوں نے ہی تلاش کر کے مجھے دئے ہونگے..

ورنہ میں بیہوش تھا میری جیب سے کس نے نکالے کب نکالے مجھے کچھ خبر نہیں تھی..

دل خوشی سے بھر گیا بات پیسوں کی نہیں پرواہ کی تھی..

یقینا انھیں مجھ سے ناراضگی نہیں ہوگی..

اور مجھے امید تھی اگر میں ٹیلی پیتھی کا کا علم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان کے ساتھ ضرور کام کروں گا..

اگلے دو تین دن میرے شاپنگ کرنے اور جانے کی تیاریاں کرنے میں گزرے..

قصہ مختصر کراچی سے اسلام اباد پھر اسکردو پہنچا..

وہاں سے سفر کا مزید سامان خیمہ, خوراک اور دیگر چیزوں کا انتظام کیا..

مجھے برف زاروں میں سفر کرنا تھا جہاں درجہ حرارت منفی پندرہ سے بھی زیادہ تھا..

اس لئے لباس سے لے کر ہر چیز مجھے اسی مناسبت سے لینی پڑی..

میرے پاس کرنسی زیرجامے میں محفوظ تھی جو اب ساڑھے تین لاکھ روپے بچی تھی..

ہتھیار کے نام پر میرے پاس بس ایک خنجر تھا..

اخرکار تمام انتظامات کر کے علاقے کا نقشہ اور قطب نما لے کر میں اپنی منزل کی طرف چل پڑا..

راستے میں راکاپوشی اور دیگر برف پوش چوٹیوں کےحسن کا نظارہ کرتے ہوئے شمال مغرب کیطرف بڑھتا رہا..

مجھے ایک ہی سمت میں چار روز تک سفر کرنا تھا جب تک میں امی جان کی بتائی ہوئی مخصوص جگہ تک نہ پہنچ جاتا..

راستے کی دشواریوں, سخت سردی, برف اور دیگر رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا میں سفر کرتا رہا..

میرے پاس احتیاطا دس دن کی خوراک تھی پانی کا مسئلہ اس لئے نہیں تھا کہ برف پگھلا کر پانی حاصل کر سکتا تھا..

مجھے تاحد نگاہ پھیلے برف کے وسیع و عریض ویرانے میں سفر کرتے چھٹا روز تھا..

چونکہ میں اندھیرا ہونے سے صبح ہونے تک سفر نہیں کرتا تھا اور سامان کا وزن بھی بے حد زیادہ تھا اس لئے میری رفتار بہت کم تھی..

میرا اندازہ تھا چار روز کا سفر طے کرنے میں مجھے چھ روز لگیں گے..

مگر اج چھٹا روز بھی گزر گیا تھا اور منزل کو کوئی پتہ نہیں تھا..

حسب معمول میں نے اندھیرا ہونے پر ایک جگہ خیمہ نسب کیا اور کھانا کھا کر سلیپنگ بیگ میں لیٹ گیا..

یہ خاص قسم کا سلیپنگ بیگ تھا جو سردی سے بالکل محفوظ رکھتا تھا..

سوتے ہوئے اچانک سے میری انکھ کھل گئی..

خیمے میں گھپ اندھیرا تھا اور کوئی شخص مجھ سے لپٹا ہوا تھا..

چند لمحوں میں اندازہ ہوا کہ لپٹنے والا کوئی مرد نہیں بلکہ عورت ہے..

میں نے پچھلے پانچ دن سے برف کے اس سمندر میں کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی تھی..

ادھی رات کو اچانک سے کوئی ملا بھی تو اس حال میں وہ بھی ایک عورت...

خدا کے لئے بچا لو..خدا کے لئے ان درندوں سے بچا لو..

اس عورت کی سسکیاں مجھے ہوش و حواس کی دنیا میں لے ائیں..

میں اٹھ کر بیٹھ گیا..

اسی وقت مختلف لوگوں کی بولنے کی اواز ائی مگر زبان نامانوس تھی..

Pakistan ISI Hypnotist Soldier


میں ابھی سچویشن سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کسی نے خیمے کو دو طرف سے چاک کر دیا..

میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو کچھ وحشی لوگ نظر ائے جن کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور درانتی نما ہتھیار نظر ائے انھوں نے مشعلیں اٹھا رکھی تھیں..

انھوں نے کھالوں سے بنی اونی لباس پہن رکھے تھے..

میں اس عورت کو ہٹایا جس کی سسکیاں اب چیخوں میں بدل چکی تھیں..

میں اٹھ کر خیمے سے نکلنا چاہتا تھا اسی وقت میرے سر پر زوردار چوٹ لگی..

میں نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر دوسری چوٹ نے مجھے ہوش و حواس سے بیگانہ کردیا..


All episodes links 

Post a Comment

0Comments

Write here your review about post.

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !