سلطنت
قسط نمبر 18 تا 25
تحریر : ارشد احمد
Pakistan ISI Hypnotist Soldier
میں نہ جانے کتنی دیر تک بیہوش رہا..
ہوش ایا تو خود کو بندھا ہوا پایا..
میرے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور انکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی..
میں کسی اسٹریچر یا شاید چھکڑے پر لیٹا تھا..
میں نے ان لوگوں کو مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر لاحاصل رہی..
کسی نے میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا..
میں نے خود کو تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا..
اگر مجھے قتل کرنا ہوتا تو وہیں کر دیتے..
میرے نصیب میں زندگی تھی سو میں اب تک زندہ تھا..
جانے قسمت نے اور کیا کچھ دکھانا تھا..
میں نے ایک چیز نوٹ کی میرے جسم پر گرم لباس نہیں تھا جو میں نے پہنا تھا..
مگر میرے اوپر کمبل نما چیز تھی یا شاید کوئی کھال سے بنی اونی چیز جس سے سردی کا احساس نہیں ہورہا تھا..
درمیان میں مجھے کئی بار احساس ہوا جیسے ہم چڑھائی چڑھ رہے ہیں کبھی اترائی میں اترنے کا..
کئی گھنٹے سے بناء رکے یہ لوگ چلتے جارہے تھے..
ہاتھ پائوں بندھے اور انکھوں پر پٹی ہونے سے ناں ہی راستے کا اندازہ ہورہا تھا ناں وقت کا..
اخرکار وہ لوگ ایک جگہ رکے اور مجھے اسی نامانوس زبان میں باتیں کرنے کی اواز ائی..
پھر مجھے دو لوگوں نے بغلوں میں ہاتھ دے کر نیچے کھینچ کر اتار دیا..
چند قدم چلنے کے بعد مجھے انھوں نے ہوا میں اٹھایا اور شاید کسی گڑھے میں اتار دیا کیونکہ ایک ہی وقت میں دو لوگوں نے مجھے بازئوں سے سنبھالا ہوا تھا..
اور نیچے مجھے ٹانگوں سے کسی نے تھام لیا تھا..
ٹانگوں سے تھامنے کے بعد بازئوں پر سے گرفت ختم ہوگئی تھی اور مجھے کسی نے زمین پر کھڑا کر دیا تھا..
پھر کسی نے جھک کر میرے پائوں کی رسیاں کھول دیں اور مجھے اگے کی طرف دھکا دیا..
میں بری طرح لڑکھڑا گیا ایک تو اتنی دیر بندھے رہنے سے خون کا دبائو ٹانگوں کی طرف کم تھا دوسرا اچانک دھکا لگنے سے توازن بگڑ گیا..
مگر میں سمجھ گیا مجھے اگے چلنے کا حکم دیا جارہا ہے..
انکھوں پر پٹی بندھی ہے مجھے نظر نہیں ارہا کیسے چلوں میں نے چیخ کر کہا..
مجھے نہیں پتہ کسی کو میری بات سمجھ ائی یا نہیں مگر..
جوابا کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور میں اس کے سہارے چلنے لگا..
کافی دیر چلنے اور کئی موڑ مڑنے کے بعد اخرکار ہم رک گئے..
مجھے لوہے کے کسی دروازے وغیرہ کے کھلنے کی اواز ائی..
اسکے بعد مجھے ہاتھ تھام کر چند قدم اور اگے لے جایا گیا..
ابھی میں کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے لگا میرے پائوں میں کوئی کڑا سا ڈال دیا گیا ہے..
میں نے اگے بڑھنے کی کوشش کی مگر شاید میرے پائوں سے زنجیر باندھ دی گئی تھی جو کھنک کر رہ گئی..
چند لمحوں بعد کسی نے میرے ہاتھ کھول دئے..
میں نے جلدی سے انکھوں پر موجود پٹی کو ہٹا دیا..
یہ بیس پچیس فٹ لمبا کمرہ تھا جو تقریبا دس بارہ فٹ چوڑا تھا..
حیرت انگیز طور پر یہ کمرا یا کوئی غار تھا یا کسی غار کو تراش کر بنایا گیا تھا..
دیوار میں مشعل روشن تھی..
میں نے پلٹ کر دیکھا مجھے لانے والے دو لوگ تھے..
وہ پلٹ کر باہر نکل گئے اور دروازہ بند کر کے لاک کر دیا گیا..
وہ دروازہ کیا چار فٹ چوڑی چھ سات فٹ اونچی مظبوط لوہے کی سلاخوں سے بنا تھا جیسے کوئی جیل یا قید خانہ ہوتا ہے..
میرا پائوں ایک کڑے میں جکڑا ہوا تھا جس کے ساتھ چار پانچ فٹ لمبی زنجیر منسلک تھی جو دیوار میں گڑے ہوئے ایک مظبوط کڑے سے منسلک تھی..
میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو مجھے دوسرے کونے میں اور لوگ بھی نظر ائے..
In Underground Jail Introduction with British People.
میرے عین سامنے مجھے ایک لڑکی نظر ائی یہ شاید وہی تھی جس کی وجہ سے میں اس مصیبت میں پھنسا تھا..
یہ کوئی انگریز لڑکی تھی جس نے خستہ حال جینز اور شرٹ پہنی ہوئی تھی جو کئی جگہ سے پھٹ چکی تھی..
شاید مزاحمت کے دوران اس کا یہ حال ہوا ہو..
وہ لڑکی زمین پر بیہوش پڑی تھی اور اس کا ایک پائوں بھی کڑے میں جکڑا ہوا تھا..
اس سے چند فٹ دور ایک بوڑھا نظر ایا وہ بھی انگریزی لباس میں تھا مگر اس نے کندھوں پر اونی کھال اوڑھی ہوئی تھی..
اسے دیکھ کر مجھے احساس ہوا میں بھی عام گھریلو کپڑوں میں تھا مگر یہاں بحرحال ٹھنڈ زیادہ تھی..
سردی محسوس ہو تو پیچھے پڑا ہوا کمبل اوڑھ لو اس بوڑھے کی نحیف سی اواز سنائی دی..
یہ بات اس نے انگریزی میں کہی تھی میرا اندازہ درست نکلا یہ لوگ انگریز ہی تھے..
کمرے میں بس ہم تین لوگ ہی تھے میں وہ لڑکی اور وہ بوڑھا انگریز..
کون ہو تم میں نے سوال کیا اور دیوار کے پاس پڑا اونی کمبل اوڑھ کر وہیں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا..
ہم بدنصیب لالچی لوگ ہیں جو ان وحشیوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں..
میرا نام پروفیسر ڈگلس ہے اور یہ لڑکی گلوریا ہے..
اپ لوگ تو مقامی نہیں ہیں پھر ان لوگوں کے چنگل میں کیسے پھنس گئے اور کس چیز کا لالچ میں نے پروفیسر سے سوال کیا..
طویل کہانی ہے ارام سے سن لینا اب یہیں زندگی گزارنی ہے ساتھ رہے گا ہمارا...
یہ قبیلہ صدیوں پرانے ایک خزانے کا محافظ ہے اس خزانے کی تلاش میں ہم پندرہ لوگ چلے تھے اور اب صرف ہم دو زندہ ہیں..
خزانہ..میں نے حیرت سے پروفیسر کو دیکھا..
ہاں سونے اور ہیرے جواہرات پر مشتمل خزانہ..پروفیسر نے میری انکھوں می دیکھتے ہوئے جواب دیا..
ااااہ ہ..اچانک گلوریا کی اواز ابھری اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر سر تھام کر رہ گئی شاید اسے بھی سر پر چوٹ لگا کر بیہوش کیا گیا تھا..
اہستہ اہستہ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی مگر اسکے پاس کوئی کمبل نہیں تھا وہ سردی سے ٹھٹھر رہی تھی..
میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر مجھے کوئی تیسرا کمبل نظر نہیں ایا..
گلوریا نے پہریداروں کے ساتھ سازش کر کے یہاں سے فرار کی کوشش کی تھی اب سزا تو جو ملے گی وہ الگ مگر اس کا گرم کمبل لے لیا گیا ہے یہ سردی سے ٹھٹھرتی رہے گی..
مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی..
میں نے اپنا کمبل اتار کر اس کی طرف پھینک دیا یہ لپیٹ لو..
گلوریا ممنونیت سے مجھے دیکھنے لگی اور کمبل اوڑھ کر پتھریلی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی..
تم کون ہو اجنبی اور اس برف زار میں تنہا کیا کر رہے تھے یہ سیاحوں کا علاقہ بھی نہیں اور تم اکیلے تھے گلوریا نے مجھ سے سوال کیا..
میں جواب دینے لگا تھا مگر اس سے پہلے قید خانے کا دروازہ کھلا اور دو شخص نظر ائے..
ایک کلہاڑی بردار تھا دوسرے کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس پر شاید کھانا رکھا تھا..
گلوریا کو دیکھتے ہی انکی انکھوں میں غضب کا طوفان نظر ایا..
جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی اس نے اسے نیچے رکھا اور غضبناک انداز میں گلوریا کی طرف بڑھا اور زردار تمانچے اس کے چہرے پر رسید کر کے اس سے کمبل چھین لیا..
میں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کلہاڑی کا پھل میری گردن سے ا لگا میں اپنی جگہ ساکت ہوگیا..
گلوریا شاید اس خوفناک سردی سے گزر چکی تھی..
یہ جانتے ہوئے بھی کہ سامنے وحشی اور ظالم لوگ ہیں وہ کمبل چھیننے کے لئے جھپٹ پڑی..
مگر ایک کمزور لڑکی اور ایک خونخوار وحشی مرد کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا..
اس نے تھپڑوں سے گلوریا کی تواضع کی اور گلوریا کو زوردار دھکا دیا اور وہ زمین پر جاگری..
اتنی مار کھانے کے بعد بھی اس کے جوش میں کمی نہیں ائی اور اس نے پھر اٹھ کر جھپٹنا چاہا..
مگر اب معاملہ شاید اس وحشی کی برداشت سے باہر ہوگیا تھا..
اس نے گلوریا کو ٹھوکروں پر رکھ لیا تھا اور لاتوں اور مکوں سے اسے دھن رہا تھا..
میں نے انکھ اٹھا کر پروفیسر کو دیکھا اس نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا..
گلوریا کی چیخیں قید خانے میں گونج رہی تھیں..
اخرکار میری بھی برداشت جواب دے گئی..
کلہاڑی بردار کی ساری توجہ گلوریا کی طرف تھی..
میں نے اس کی کلائی پر ہاتھ ڈال کر ایک زوردار ٹھوکر اس کی ٹانگ پر رسید کر دی..
کلہاڑی میرے ہاتھ میں بھی نہیں ائی اور دور جا گری مگر کلہاڑی بردار توازن کھو کر زمین بوس ہوگیا..
میں جانتا تھا گلوریا کو ظلم سے بچانے کا واحد راستہ یہی تھا کہ ان کے غصے کا رخ اپنی طرف موڑ لوں..
اور وہی ہوا دوسرا شخص جو گلوریا سے مارپیٹ کر رہا تھا وہ اسے چھوڑ کر میری طرف پلٹ گیا..
اگلے چند منٹ لاتیں, گھونسے, تھپڑیں برداشت کرتے میں زخموں سے چور ہوگیا..
میرے جسم پر موجود شرٹ بھی جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی..
جب دونوں نے مجھے چھوڑا تو میں زمین پر پڑا کراہ رہا تھا..
اگرچہ میرا جسم کسی باڈی بلڈر کی طرح مظبوط, بھرا ہوا اور متناسب تھا..
مگر دو ہٹے کٹے وحشیوں نے اس بری طرح مارا تھا کہ مجھے لگ رہا تھا میرا جسم جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے..
پیشانی سے خون ٹپک کر انکھ میں اگیا تھا اور میری ایک انکھ سوج کر بند ہوچکی تھی..
ہونٹوں پر خون کے ذائقے سے اندازہ ہوا کہ ہونٹ بھی کٹ چکا ہے..
میں نے سکون کا کچھ سانس لیا ہی تھا کہ مار پیٹ بند ہوئی..
مگر اگلے ہی لمحے میری خوش فہمی دور ہوگئی..
قید خانے میں شور شرابے کی اواز سن کر دو تین مزید لوگ اچکے تھے..
ایک نے گلوریا سے چھینا ہوا کمبل اٹھا لیا مگر وہ ہر بات سے بے نیاز زمین پر بیہوش پڑی تھی..
کلہاڑی بردار شخص نے میرے جسم پر موجود شرٹ اور پینٹ بھی پھاڑ ڈالی اور کھینچ کر میرے جسم سے اتار دی میں اب صرف زیر جامے میں تھا..
یقینا اس شدید سردی میں برہنگی بذات خود بہت بڑا عذاب اور سزا تھی..
جس شخص کے ہاتھ میں کمبل تھا اس نے میرا لباس بھی تھام لیا اور لے کر قید خانے سے باہر نکل گیا..
ابھی میں ہوش و حواس مجتمع کر رہا تھا کہ اس کلہاڑی بردار نے میرے پائوں کا کڑا کھول کر مجھے ازاد کردیا..
اسکے ساتھ باقی دو لوگوں نے مجھے جھٹکے سے اٹھا کر فرش پر کھڑا کردیا اور ایک نے میری انکھوں پر پٹی باندھ دی اور قید خانے سے باہر کی طرف دھکا دیا..
میں لڑکھڑاتا ہوا اگے قیدخانے سے باہر جاگرا..
Going , Out From Under ground jail. Get , To the king of sultnat.
ابھی میں اٹھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ میری دونوں ٹانگیں دو ہاتھوں کی گرفت میں اگئیں اور وہ مجھے زمین پر گھسیٹنے لگے..
سخت پتھریلی زمین اور زخموں سے چور میرا جسم..
برداشت کی بھی حد ہوتی ہے اذیت, تکلیف اور برہنگی کی شرمندگی سے میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے پر مجبور ہوگیا..
مگر ان لوگوں پر کسی چیز کا اثر نہیں ہوا اور وہ بدستور مجھے زمین پر گھسیٹتے اگے بڑھتے رہے..
جانے کتنی دیر تک میں زمین پر گھسٹتا چیختا چلاتا رہا..
اخرکار اس سفر کا اختتام ہوا اور میں زمین پر پڑا زخموں سے کراہنے لگا..
میری کمر اور پچھلا جسم پتھریلے اور سخت فرش پر گھسٹنے کی وجہ سے بری طرح چھل چکا تھا..
میرے زخموں سے بری طرح ٹیسیس اٹھ رہی تھیں اور میں ناں چاہتے ہوئے بھی کراہ رہا تھا..
اچانک کسی عورت کی اواز سنائی دی اور میں زخموں کی اذیت سے چور ٹانگیں سمیٹ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا..
اسی وقت ایک شخص نے میری انکھوں پر سے پٹی ہٹادی..
میں نے نظر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی..
یہ لمبائی اورچوڑائی رخ ایک طویل کمرہ نما ہال تھا..
میری نظروں کے سامنے پتھر سے تراشا ہوا ایک تخت رکھا تھا جس پر کھالیں منڈھی ہوئی تھیں..
اس تخت پر ایک لمبی تڑنگی اور خونخوار نظر انے والی عورت براجمان تھی جس نے نفیس مگر موٹا اونی لباس زیب تن کیا ہوا تھا..
تخت کے پیچھے سنگی دیوار پر دو کلہاڑیاں کراس میں لٹکی ہوئی تھیں..
میرے دائیں اور بائیں کچھ کچھ فاصلے سے لائن سے کھالیں بچھا کر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا..
شاید یہ عورت ان کی سردار تھی اور دائیں بائیں موجود کھالوں پر جرگے یا بیٹھک کے وقت قبیلے کے لوگ بیٹھتے ہونگے..
میرے دائیں اور بائیں دو لوگ موجود تھے دونوں کے ہاتھ میں کلہاڑیاں تھیں..
اس عورت نے میرے دائیں ہاتھ والے شخص کی طرف دیکھ کر کچھ کہا..
اگلے ہی لمحے اس شخص نے مجھے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اس عورت کے قدموں میں پھینک دیا..
میرا سر اس کے قدموں میں تھا اور میں اپنے زخموں سے اٹھتی ٹیسوں کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا تھا..
اچانک وہ عورت تخت پر بیٹھے بیٹھے نیچے میری طرف جھکی مجھے اس کی انکھوں میں عجیب سے درندگی اور ہوس نظر ائی..
اس نے دو انگلیاں میرے چہرے پر پھیریں جو خون سے لت پت تھا..
اس کی انگلیاں میرے خون سے بری طرح لتھڑ گئیں...
اگلے ہی لمحے مجھے ابکائی سی محسوس ہوئی اس غلیظ عورت نے دونوں انگلیاں منہ میں ڈالیں اور زبان نکال کر اپنی انگلیوں پر لگا خون چاٹنا شروع کردیا..
چاٹنے سے شاید اس کی تسلی نہیں ہوئی تھی اس نے دونوں انگلیاں منہ میں ڈالیں اور چٹخارے لے کر چوسنے لگی..
اس کے چہرے پر اس وقت مجھے ایک پراسرار سی مسکراہٹ نظر ائی..
اس کی اس حرکت سے میرا جی بری طرح متلا رہا تھا..
انگلیاں چاٹنے کے بعد اس نے اسی نامانوس سی زبان میں میں ایک شخص سے کچھ کہا..
وہ شخص اگے ایا اور اس نے مجھے گھٹنوں کے بل بٹھا دیا..
اگلے ہی لمحے میرے ہاتھ پیچھے کر کے اس نے کسی ہتھکڑی نما کڑوں میں جکڑ دئیے..
مجھ میں مزاحمت کرنے کی اب بالکل ہمت نہیں تھی..
ابھی میں اس افتاد کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اسی ہتھکڑی نما کڑوں سے میرے دونوں پائوں کو بھی جکڑ دیا گیا..
اس عورت نے بڑی نزاکت سے اپنے سیدھے پائوں میں پہنی ہوئی کھال ہی کی جوتی اتار کر ایک طرف رکھ دی اور اپنا پائوں تخت پر بیٹھے بیٹھے اگے ہوا میں اٹھا دیا..
میں ابھی اس حرکت کا مطلب سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ جس نے مجھے ہتھکڑیوں میں جکڑا تھا اس بے میرا سر پکڑ کر زمین کی طرف جھکا دیا..
ذلت کی انتہا تھی میں کسی چوپائے کی طرح اگے جھکا ہوا تھا..
وہ عورت اگلے ہی لمحے اپنا پائوں میرے منہ کے پاس لے ائی..
اسی وقت اس عورت نے اسی نامانوس زبان میں کچھ کہا..
میرے پیچھے کھڑے شخص نے میرے بال جکڑ کر میرا میرا منہ اس کے پائوں پر رکھ دیا..
وہ عورت شاید مجھے اپنا پائوں چاٹنے کا حکم دے رہی تھی..
ذلت اور درد و اذیت پر شدید غصے کے تاثرات غالب اگئے میں نے سر اٹھانے کی کوشش کی..
اسی لمحے کلہاڑی بردار شخص نے کلہاڑی کو پھل کی طرف سے تھام کر اس کے ڈنڈے سے میرے جسم پر ضربیں لگانی شروع کردیں..
میں جو پہلے ہی زخموں سے چور تھا یہ مار برداشت نہیں کر سکا اور میں نے سر جھکا کر انکھیں بند کیں اور زبان نکال کر اسکے پائوں پر پھیرنی شروع کردی..
مجھے انتہائی ذلت محسوس ہورہی تھی..
مگر میں اس وقت مجبور تھا میرے زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور جسم لہولہان تھا..
کچھ دیر میں انکھیں بند کئے اس کا پائوں اوپر اور نیچے سے کراہت سے چاٹتا رہا..
سردار نے اپنی اسی نامانوس سی زبان میں کلہاڑی بردار سے کچھ کہا..
میں نے انکھیں کھول لیں مگر چاٹنا جاری رکھا مبادا پھر مارپیٹ ناں شروع ہوجائے..
مگر اس نے اپنا پائوں ہٹا لیا تو میں نے سکون کا سانس لیا..
کلہاڑی بردار نے مجھے اٹھا کر کھڑا کردیا اور ایکطرف دھکیلا..
میں نے نظر اٹھائی وہاں دیوار پر بہت لمبی اور چوڑی کھال یا شاید اونی چادر دیوار پر لٹکی تھی..
چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوگیا وہ کمرے کا دروازہ تھا جس پر پردے کے لئے وہ کھال لٹکائی گئی تھی..
اس کلہاڑی بردار نے مجھے اگے دھکیلا تو میں لڑکھڑا گیا..
میرے ہاتھوں میں بندھے ہتھکڑی نما کڑوں کا درمیانی فاصلہ شاید چند انچ تھا..
مگر پائوں میں جو دو کڑے تھے انکے درمیان زنجیر تھی جو تقریبا ایک فٹ کے قریب تھی..
میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے چل سکتا تھا..
مگر کلہاڑی بردار نے دھکا دیا تو میں لڑکھڑاتا ہوا اس کھال والے دروازے سے اندر جاگرا..
مجھے اپنےکانوں میں ان وحشیوں اور سردار کے قہقہے سنائی دئیے میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا..
کاش میرے زخم بھرنے کی شکتی کام کر رہی ہوتی..
میں نہیں جانتا تھا کیا تبدیلی ائی ہے جو میرے زخم نہیں بھر رہے..
حالانکہ بچپن سے جوانی تک بے شمار چوٹیں لگیں اور حال ہی میں چار گولیاں میرے جسم میں پیوست ہوئیں مگر ناں ہی درد کا کچھ خاص احساس تھا ناں کوئی ایسی قابل ذکر تکلیف اور زخم بھی فورا بھرگئے..
پھر اب ایسا کیا ہے کہ ناں ہی زخم بھر رہے ہیں اور ناں ہی تکلیف کم ہورہی ہے..
کیا یہ شدید سرد موسم کی وجہ سے ہے..
کیا میرا جسم صرف گرم ماحول میں سیلف ریکور کرنے پر قادر ہے اور ٹھنڈ میں یہ صلاحیت کام نہیں کرتی..
یا اب میری وہ شکتی ختم ہوچکی ہے..
میرے پاس فی الحال اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا..
سردی اور زخموں کی تکلیف سے میرا برا حال ہورہا تھا..
کاش میرے پاس ٹیلی پیتھی کا علم ہوتا تو اتنی مصیبتوں میں ناں پڑتا...
ہپناٹزم کا تجربہ اگرچہ میں عالیہ باجی پر کر چکا تھا..
مگر ہپناٹزم کے لئے بنیادی شرائط میں انکھوں کی کشش اور گھمبیر اور دل میں اتر جانے والی اواز کے ساتھ پرسکون ماحول اور کمزور قوت ارادی کا معمول ہونا ضروری ہے..
اگر کسی شخص کی قوت ارادی مظبوط ہو تو اسے معمول بنانا اسان نہیں ہوتا..
اور ان جنگلیوں کو معمول بنانا اس لئے بھی ممکن نہیں تھا کہ ان کی زبان میں نہیں سمجھتا تھا ناں میری زبان وہ سمجھ رہے تھے..
تو ان پر ہپناٹزم کا عمل کرنے کا سوچنا ہی بیوقوفی تھی..
میں جہاں اکر گرا تھا شاید سرادار کی خواب گاہ تھی..
Lying down in the bedroom of king.
یہ بھی سنگی کمرہ تھا جس میں ایک طرف دیوار کے ساتھ تین چار فٹ اونچا اور پانچ چھ فٹ لمبا پتھر کا چبوترا نظر ارہا تھا..
اس چبوترے پر اونی بستر اور کمبل وغیرہ موجود تھے..
ایک طرف لکڑی کے ایک دو بکس رکھے تھے..
عورتوں کے بنائو سنگھار کی چیزیں, دو کلہاڑیاں, ڈھال, کچھ برتن اور اسی طرح کا سامان وہاں سلیقے سے موجود تھا..
اچانک کھال کا پردہ اٹھا اور وہی سرادر عورت اندر داخل ہوئی اور چلتی ہوئی چبوترے پر اکر بیٹھ گئی..
میں اس کے عین سامنے زمین پر اس حالت میں پڑا تھا کہ میرے ہاتھ اور پائوں جکڑے ہوئے تھے..
ہاتھ پیچھے بندھے ہونے کی وجہ سے میں کروٹ کے بل لیٹنے پر مجبور تھا..
اس نے سر سے پائوں تک میرے جسم کا بغور جائزہ لینا شروع کیا..
اسکی انکھوں سے ہوسناکی عیاں تھی..
ایک انوکھی اور حیرت انگیز بات میں نے اور نوٹ کی مار پیٹ ہوئے اور زخم لگے مجھے کافی دیر ہوچکی تھی اور ٹھنڈ بھی بہت تھی..
مگر اس کے باوجود میرے پورے جسم سے زخموں سے بہبے والا خون جما نہی تھا..
اگرچہ اب مزید نہیں بہ رہا تھا مگر جو تھا وہ بالکل تازہ تھا..
میڈیکل پوائنٹ اف ویو سے یہ ناممکن ہے..
مگر میرے ساتھ تو سب کچھ ہی انوکھا تھا..
اچانک وہ عورت مجھ سے مخاطب ہوکر کچھ کہنے لگی..
مجھے اس کی زبان خاک سمجھ اتی میں ہونقوں کی طرح اسے دیکھتا رہا..
جب اسے اندازہ ہوا کہ میں اس کی زبان نہیں سمجھ رہا تو اس کے چہرے پر جھلاہٹ نظر ائی..
کچھ دیر وہ پرخیال نظروں سے مجھے دیکھتی رہی..
پھر اس نے ایک انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا "سارنی" پھر انگلی میری طرف اٹھائی..
اسکے گونگے اشاروں سے مجھے اندازہ ہوگیا وہ اپنا نام بتا رہی ہے اور میرا نام پوچھ رہی ہے..
علی..میں نے جواب دیا..عالییی..اس نے میرے نام کا حلیہ بگاڑ دیا مگر میں خاموش رہا اور اثبات میں سر ہلا دیا..
اس کے چہرے پر خوشی کے اثار نمودار ہوگئے..
پھر وہ اٹھ کر میرے پاس ائی اور گھٹنوں کے بل میرے پاس بیٹھ کر ایک انگلی میرے چہرے پر ملی..
میرا خون اس انگلی پر لگا اس نے وہ انگلی میرے سامنے کر کے پھر اسی زبان میں کچھ کہا..
میں زبان تو نہیں سمجھا مگر مجھے اندازہ ہوگیا وہ بھی خون کے ناں جمنے پر تجسس کا شکار تھی..
میں نے بے بسی سے چہرے کے تاثرات سے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نہیں جانتا..
پتہ نہیں اسے سمجھ ائی میری بات یا نہیں مگر اس نے خون سے لتھڑی انگلی اپنے منہ میں ڈالی اور چوستے ہوئے پرخیال نظروں سے میری طرف دیکھتی رہی..
چند لمحوں بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی کمرے میں دو مشعلیں روشن تھیں اس نے ان میں سے ایک کو بجھا دیا..
شاید وہ سونے کی تیاری کر رہی تھی..
مجھے بھوک محسوس ہورہی تھی مگر اسے کہنا اور سمجھانا بھینس کے اگے بین بجانے جیسا تھا..
مشعل بجھانے کے بعد اس نے اپنا لمبا موٹا اونی لبادہ اور اونی ٹوپی وغیرہ اتارے اور دیوار پر ٹانگ دئیے..
لبادے کے نیچے بھی اس نے ایک چولہ نما لباس پہنا ہوا تھا.
اس نے نظر گھما کر مجھے دیکھا میں اسے ہی دیکھ رہا تھا..
نظریں ملتے ہی میں شرمندہ سا ہوگیا اس کے چہرے پر مسکراہٹ اگئی میں نے نظریں پھیر لیں..
میں نے دوبارہ نظریں اٹھائیں تو وہ بڑی ادا سے چلتی ہوئی میری طرف ارہی تھی..
قریب پہنچ کر وہ میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اور جھک کر میرے چہرے کے قریب اپنا چہرے لے ائی..
وحشی اور سخت گیر نظر انے کے باوجود وہ بے انتہا حسین تھی..
میں نے اپنا سر پیچھے ہٹانا چاہا مگر اس نے میرے بال جکڑ کر جھٹکا دیا..
درد کے مارے میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی مگر اس عورت کو کوئی فرق نہیں پڑا..
میں نے انکھیں بند کر کے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا..
ناں میں اسے کچھ بھی کرنے سے روک سکتا تھا ناں ہی منع کر سکتا تھا..
میں سمجھا شاید وہ قربت چاہ رہی ہے مگر میں نے اس کی زبان اپنے ماتھے پر سرسراتی محسوس کی تو جھٹکے سے انکھیں کھولیں..
وہ غلیظ عورت مجھ پر جھکی کسی کتیا کی طرح میرا لہو چاٹ رہی تھی..
مجھے شدید کراہت اور ابکائی کا احساس ہوا..
وہ چٹخارے لے لے کر میرے چہرے سے لہو چاٹ رہی تھی..
میں نے انکھیں بند کرلیں..
خون کا ذائقہ ایسا نہیں ہوتا کہ اسے چٹخارے لے کر چاٹا جائے..
شاید یہ عورت میرے خون کو کچھ خاص سمجھ رہی تھی اس لئے ہر قطرہ اپنے اندر سما لینا چاہتی تھی یا واقعی یہ خون اشام جونک تھی جو خون پیتی تھی میں فیصلہ نہیں کرپایا..
اچانک وہ اٹھی اور کمرے کے کونے تک گئی جب واپس ائی تو میرے ہاتھوں سے کچھ کرنے لگی..
چند ہی لمحوں میں مجھے اپنے ہاتھ ہتھکڑی سے ازاد ہوتے محسوس ہوئے..
وہ کڑوں والی ہتھکڑی اس نے ایک طرف پھینک دی
مگر اچانک اس کی انکھیں حیرت اور خوف سے پھٹنے لگیں اور وہ ساکت ہوگئی..
مگر اگلے ہی لمحے وہ ہر چیز بھول کر گھٹنوں کے بل بیٹھی اور میرے سامنے سر جھکا دیا..
سارماران..سارماران..بس یہ الفاظ اس کے منہ سے اٹک اٹک کر نکل رہے تھے..
میں اٹھ کر بیٹھ گیا میرے پائوں ابھی تک کڑوں میں جکڑے ہوئے تھے..
میری سمجھ میں کچھ نہیں ارہا تھا اچانک کیا ہوا ہے..
سارنی اتنی تابعداری کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے..
میں نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اپنے پائوں کے کڑوں کی طرف اشارہ کیا..
سارنی اٹھی اور بھاگتی ہوئی ایک طرف پڑی چابی اٹھا لائی اور کڑے کھول دئے..
میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا مگر سارنی گھٹنوں کے بل سر جھکائے بیٹھی رہی..
میں نے اپنا سیدھا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا میرا مقصد اسے سہارا دے کر کھڑا کرنا تھا..
مگر اس نے میرا سیدھا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹ میری درمیانی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر ثبت کر دئیے..
میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا..
یہ میرے باپ کا قبیلہ تھا..
میرے ذہن کے کسی گوشے میں شک تو تھا مگر یقین نہیں تھا..
میرے ہاتھ میں سرداری کی مقدس مہر والی انگوٹھی تھی..
امی جان نے بتایا تھا جو انگوٹھی کا مالک ہوگا وہی قبیلے کا سردار ہوتا ہے..
Be King of sultnat
میں انجانے میں اپنے باپ کے قبیلے میں پہنچ گیا تھا..
مگر یہ عورت سارنی کون ہے..
میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا وہ منتظر نظروں سے مجھے دیکھنے لگی..
مجھے سمجھ نہیں ارہا تھا میں اس سے اپنی زبان میں کیسے بات کروں..
اخر میں نے اسے اشارے سے اپنا لباس منگوانے کا کہا..
سارنی فورا دروازے کی طرف بڑھ گئی اور پردہ ہٹا کر باہر نکل گئی..
میں سنگی تخت پر بیٹھ گیا اور پیش انے والے حالات پر غور کرنے لگا..
میرے لئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا اس کے بناء ناں میں ان وحشیوں کو اپنی کوئی بات سمجھا سکتا تھا نہ ان سے کچھ پوچھ سکتا تھا..
میں اپنے خیالوں میں گم تھا کہ ڈھول بجنے کی اواز سنائی دی..
ایک مخصوص ردھم میں ڈھول یا ڈرم جو بھی تھا بجایا جارہا تھا..
مجھے اس وقت ڈھول بجانے کی وجہ سمجھ نہیں ائی..
شاید سراداری کے حوالے سے قبیلے والوں کو اکٹھا کیا جارہا ہو..
کچھ دیر میں سارنی اندر داخل ہوئی اس کے ہاتھ میں میری پینٹ تھی اور گرم اونی لبادہ تھا..
دونوں چیزیں لے کر وہ میرے سامنے ائی اور گھٹنا ٹیک کر دونوں ہاتھوں پر رکھ کر پینٹ اور لبادہ مجھے پیش کیا..
اس نے بھی تابعداری کی حد کردی تھی کہاں مجھ سے پیر چٹواتی اور تشدد کرواتی رہی تھی اب اس کی سعادت مندی نہیں ختم ہورہی تھی..
میں نے انگوٹھی کو چوم لیا اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا سب کچھ صرف اس مقدس انگوٹھی کے باعث ممکن ہوا تھا..
میں نے پینٹ اور اونی کوٹ پہن لیا سارنی نظریں جھکائے مودب کھڑی تھی..
میں کھڑا ہوا تو اس نے نہایت احترام سے مجھے باہر چلنے کا اشارہ کیا..
میں نے پردہ ہٹا کر باہر ہال نما کمرے میں قدم رکھا تو حیران رہ گیا..
پورا ہال لمبے تڑنگے وحشیوں سے بھرا ہوا تھا..
سرداری نشست کے سامنے جو دائیں بائیں لائن سے بیٹھنے کے لئے کھالیں رکھی گئی تھیں..
ہر کھال پر ایک شخص کھڑا تھا اور حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا..
یہ کل بیس کے قریب لوگ تھے جو شاید نئے سردار سے متعارف ہونے ائے تھے..
سرداری نشت کے قریب ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا اس نے بھی اونی لباس زیب تن کیا ہوا تھا مگر اس کے نقوش ان وحشیوں سے ہٹ کر تھے وہ ان میں سے نہیں لگ رہا تھا..
مجھے دیکھتے ہی سب لوگوں نے ایک گھٹنا زمین پر ٹکایا اور ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر جھک گئے..
یہ شاید ان کی تعظیم کا انداز تھا..
سارنی نے مجھے سرادر کی نشت کی طرف چلنے کا اشارہ کیا..
میں چلتا ہوا سردار کی نشست تک پہنچا جہاں کچھ وقت پہلے ہی میں نے شرمناک انداز میں سارنی کے پیر چاٹے تھے..
میں نشست کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا..
مقدس مہر والے سردار قبیلے کے بڑوں کو اس انگوٹھی کو چومنے کا شرف بخش دے..
میں نے چونک کر دیکھا سرداری نشت کے پاس کھڑا بوڑھا گھٹنا ٹیکے اور سر جھکائے مجھ سے مخاطب تھا..
اتنی دیر بعد ایک شخص اپنی زبان میں بات کرنے والا ملا تھا دل خوشی سے لبریز ہوگیا..
میں اس سے بات کرنے اور سب کچھ جاننے کے لئے بے چین ہوگیا..
مگر تمام لوگ تعظیمی انداز میں جھکے ہوئے تھے مناسب تھا پہلے انھیں نپٹالیا جاتا..
اجازت ہے میری طرف سے کہدو..
بوڑھے نے جھکے ہوئے ہی ان سب کو مخاطب کر کے انکی زبان میں کچھ کہا..
اسکے بعد وہ سیدھا کھڑا ہوا اور میرے سامنے اکر جھک گیا..
میں نے اپنا ہاتھ اگے بڑھا دیا جسے بہت عقیدت سے تھام کر اس نے انگوٹھی کو چوما اور واپس اپنی جگہ جاکر کھڑا ہوگیا..
اسکے بعد دائیں قطار سے ایک شخص میرے سامنے ایا اور گھٹنے پر بیٹھ کر جھک کر انگوٹھی کو چوم کر واپس اپنی جگہ جاکر کھڑا ہوگیا..
بیس لوگ باری باری اتے گئے اور اپنی نشست پر جاکر کھڑے ہوتے گئے..
اخر میں سارنی میرے سامنے ائی اور اس نے دوبارہ انگوٹھی کو چوما اور میرے دائیں طرف کھڑی ہوگئی..
مترجم بوڑھا میرے بائیں طرف کھڑا تھا..
میں نشست پر بیٹھ گیا اور ان سب کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا..
میرے بیٹھنے کے بعد تمام لوگ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے..
میرے دائیں طرف زمین پر سارنی اور بائیں طرف وہ بوڑھا مترجم بھی بیٹھ چکا تھا..
تمام لوگوں کا بے حد شکریہ اپ سب لوگ جاننے کے لئے بے تاب ہونگے میں کون ہوں..
میں اہستہ اہستہ بول رہا تھا تاکہ مترجم بوڑھا میری بات ان لوگوں کی زبان میں انھیں سمجھا سکے..
برسوں قبل اس قبیلے کا سردار میرا باپ "سرکان" تھا اس کے بھائی نے بغاوت کی تو میرے باپ نے یہ مقدس انگوٹھی میری ماں کو دے کر ہم ماں بیٹے کو یہاں سے خفیہ طور پر روانہ کردیا..
اتنے برس میں مختلف شہروں میں رہا میری ماں کا انتقال ہوچکا ہے اور میں اب اپنے باپ کے قبیلے میں واپس ایا ہوں..
میری بات مکمل ہوتے ہی چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں..
میں نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش رہنے کا حکم دیا..
میں جانتا ہوں اپ سب ہے ذہنوں میں بہت سے سوال ہونگے مگر میں کئی دن کا سفر کر کے یہاں تک پہنچا ہوں اور تھکا ہوا ہوں میں چاہتا ہوں اس وقت اپ لوگ بھی ارام کریں ہم صبح میں دوبارہ نشست رکھیں گے اور بات کریں گے, اپ لوگوں کی امد کا بہت شکریہ..
مترجم نے میری بات لوگوں تک پہنچا دی اسکے بعد تمام لوگ اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور الٹے قدموں چلتے ہوئے ایک ایک کر کے اس ہال نما کمرے سے باہر نکل گئے..
اب میرے ساتھ صرف وہ بوڑھا اور سارنی رہ گئے تھے ان دونوں کو میں نے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا..
بوڑھا بائیں جانب بیٹھ گیا اور سارنی دائیں جانب کھالوں پر براجمان ہوگئی..
بوڑھے مترجم نے اپنا نام سروپ بتایا..
بابا میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرے باپ کے ساتھ کیا ہوا قبیلے میں اس وقت سے لے کر اب تک کے تمام حالات مجھے بتائیں اور سارنی کون ہے کیسے یہ سرداری کی نشست پر فائز ہوئی..
تمھارے چچا کی بغاوت میں تمھارا باپ اور چچا دونوں مارے گئے تھے..
ہمارا قبیلہ سورج دیوتا کی پرستش کرتا ہے تمھارے نانا "عظیم ہاکان" بڑے معبد کے پجاری ہیں تمھارے والد اور چچا کے بعد قبیلے والوں نے متفقہ طور پر سرداری کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا تھا..
تمھاری ماں ہوتی تو سرداری اسے ملتی مگر اس کی غیر موجودگی میں سرداری کی حقدار تمھارے چچا کی بیوی "سارنی" ٹھری..
میں حیرت سے اپنی جگہ ساکت ہوگیا..
میں نے نظریں اٹھا کر سارنی کی طرف دیکھا..
مجھ سے نظریں ملتے ہی چچی کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات چھا گئے اور اس نے منہ نیچے کر لیا..
میں نہیں جانتا تھا اگے کیا ہوگا مگر میری سوچ تھی کہ پوری کوشش کروں گا سارنی سے اپنے رشتے کا لحاظ رکھنے کی..
سروپ بابا بات کر کے خاموش ہوگئے تھے میں اپنے خیالات میں گم تھا..
سروپ بابا میرے نانا کہاں ہیں اور میرے خاندان کے باقی لوگوں میں اور کون ہے..
سردار تمھارے نانا یہاں سے بہت دور اپنی زندگی گزارتے ہیں تم چاہو گے تو ان سے تمھاری ملاقات ہوجائے گی..
تمھارے دادا کے دو ہی بیٹے تھے دونوں نہیں رہے صرف سارنی بیٹی ہے جس نے اب تک قبیلے کو سنبھالا ہوا تھا..
تمھارے نانا کی ایک ہی اکلوتی بیٹی تھی جس کی شادی یہیں قبیلے کے ایک مرد سے ہوئی تھی..
اس کی پہلی اولاد ایک بیٹی جب پیدا ہوئی تو وہ خون زیادہ بہ جانے کی وجہ سے چل بسی شاید کوئی پیچیدگی ہوگئی تھی..
اسکا شوہر اسی بغاوت میں مارا گیا تھا اور اس کی بیٹی اب اپنے نانا کے ساتھ رہتی ہے..
بس سارنی تمھارے نانا اور ان کی پوتی کے علاوہ تمھارا کوئی رشتے دار زندہ نہیں ہے..
سروپ بابا نے بات مکمل کی تو اچانک مجھے قیدیوں کا خیال ایا وہاں گلوریا اور پروفیسر قابل رحم حالت میں تھے..
قید خانے میں جو بوڑھا پروفیسر ہے وہ اور اس لڑکی کو عزت سے یہاں بلوائیں میں نے سروپ بابا کو حکم دیا..
سروپ بابا نے سارنی کو میری بات پہنچائی اور سارنی اٹھ کر اس ہال سے باہر نکل گئی شاید وہ خود قیدیوں کو لینے گئی تھی..
یہ قیدی کون ہیں بابا اور یہاں کیوں قید ہیں..
سردار صدیوں سے ہماری روایت ہے جو شخص ایک بار قبیلے میں اجاتا ہے اسے واپس مہذب دنیا میں نہیں بھیجا جاتا..
شاید اسی لئے ہم اج تک محفوظ ہیں ناں کوئی ہم تک پہنچ پاتا ہے ناں ہی ہم میں سے کسی کو قبیلے سے باہر جانے کی اجازت ملتی ہے..
ضروری ساز و سامان کی خریداری کے لئے باہر میں جاتا ہوں اور میرے ساتھ دو محافظ ہوتے ہیں..
وہ قیدی ہماری حدود میں اگئے تھے اور انھوں نے قبیلے میں داخل ہونے کا راستہ تلاش کر لیا تھا..
خونریز لڑائی ہوئی ہمارے پانچ ادمی مرے مگر ان میں سے تمام لوگ مارے گئے صرف یہی دو لوگ زندہ بچے تھے جنھیں یہاں قید کردیا گیا تھا..
یہ لوگ خزانے کی تلاش میں یہاں تک پہنچے تھے..
میں نے حیرانگی سے سروپ بابا کو دیکھا..
کیسا خزانہ..یہ بات پروفیسر نےبھی مجھے بتائی تھی سوال یہ ہے جب یہاں کا بیرونی دنیا سے تعلق نہیں کوئی رابطہ نہیں تو خزانے کا راز باہر کیسے پہنچا اور وہ کس کا خزانہ ہےمطلب قبیلے میں کہاں سے ایا..
سردار ہم نے بھی اس کے بارے میں قبیلے کے معمر لوگوں سے سنا ہے مگر وہ خزانہ دیکھا کسی نے نہیں..
اسے اسطرح محفوظ کیا گیا ہے کہ اس تک پہنچنا ناممکن ہے..
قبیلے میں پرانے چمڑے پر بنے نقشے سے اس کے مقام کا پتہ چلتا ہے..
اس کے ساتھ ایک اور چمڑے ہی کا نقشہ نما کوئی چیز ہے جس پر اجنبی زبان میں کچھ عبارت اور نشانات ہیں..
یہ دونوں چیزیں معبد کے بڑے پجاری کی تحویل میں رہتی ہیں..
اس خزانے کا راز باہر کیسے گیا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے..
یہ قبیلہ صدیوں سے یہاں اباد ہے شاید بہت پہلے ہم سب سے پہلے کسی نے غداری کی ہو یا قبیلے سے نکل کر باہر کی دنیا تک گیا ہو یہ اندازہ ہے حقیقت کا علم کسی کو نہیں..
ٹھیک ہے بابا اپ اب مستقل میرے ساتھ رہیں گے اپنا سامان اور جو چیزیں ہیں یہیں لے ائیں مجھے ہر وقت اپ کی ضرورت پڑے گی جب تک مجھے یہاں کی زبان سمجھ نہیں اجاتی..
ٹھیک ہے سروپ بابا نے سر جھکا کر جواب دیا..
اسی وقت ہال میں سارنی داخل ہوئی اس کے ساتھ گلوریا اور پروفیسر تھے..
گلوریا زخمی تھی اور ساتھ سردی سے کانپ رہی تھی...
سروپ بابا دونوں قیدیوں کے لئے گرم لباس کا بندوبست کروائیں..
گلوریا اور پروفیسر چلتے ہوئے میرے سامنے اگئے اور حیرانگی سے مجھے دیکھ رہے تھے..
میں نے مسکراتے ہوئے انھیں بیٹھنے کا کہا..
دونوں سروپ بابا کے برابر میں فرشی کھالوں کی نشت پر بیٹھ گئے..
مجھے اب تک یقین نہیں ارہا کچھ دیر پہلے تم پر تشدد ہورہا تھا اب سرداری کی نشست پر کیسے پروفیسر نے حیرانگی سے پوچھا..
لمبی کہانی ہے پروفیسر پھر کبھی سہی میں کچھ معاملات میں مصروف ہوگیا تھا اس لئے توجہ نہیں دے سکا اپ لوگوں کی طرف..
سروپ بابا نے سارنی سے کچھ کہا تھا شاید کپڑوں کا وہ باہر جاچکی تھی..
اپ کس چیز کے پروفیسر ہیں میں نے پوچھا..
میں ماہر اثار قدیمہ ہوں اور قدیم زبانون کو پڑھنا جانتا ہوں اسی لئے اس بدنصیب ٹیم کے ساتھ تھا جو ماری گئی..
میں سیدھا ہوکر بیٹھ گیا پروفیسر میرے کام اسکتا تھا مگر میں نے اس پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا..
اور گلوریا کس حیثیت سے شامل تھی ٹیم میں..
خزانے کا نقشہ بہت پیچیدہ ہے گلوریا کے بولنے سے پہلے پروفیسر بول پڑا..
وہاں تک جانے کے راستے ایسے ہیں کہ کوئی شخص اسانی سے اس خزانے کو حاصل نہیں کر سکتا..
اس کے لئے حساب کتاب اور دیگر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے..
گلوریا حساب کی ماہر ہے اور اثار قدیمہ اس کا شوق..
اتنی دیر میں سارنی اندر داخل ہوئی اس کے ہاتھ میں دو اونی لونگ کوٹ تھے جو اس نے پروفیسر اور گلوریا کی طرف بڑھا دئے..
گلوریا اٹھ کر کھڑی ہوئی اور اونی کوٹ پہن لیا یہ کوٹ سامنے سے کھلے تھے انھیں کمر پر سے کھال ہی کی بنی بیلٹ سے باندھا جاتا تھا..
پروفیسر اور گلوریا کوٹ پہن کر واپس بیٹھ گئے..
سارنی بھی اپنی جگہ بیٹھ چکی تھی..
میں نے سروپ بابا سے کہا سارنی سے کہیں اگر سونا چاہتی ہے تو وہ جاسکتی ہے..
سروپ بابا نے اسے میری بات پہنچائی جوابا اس نے کہا..
سردار میرے پاس وہی کمرہ ہے رہنے کے لئے اگر سردار چاہیں گے تو صبح سے میں اپنی رہائش کا انتظام کرلوں گی مگر اس وقت میں یہیں موجود رہنا چاہتی ہوں..
سروپ بابا مجھے قبیلے کے مکمل حالات بتائیں ہر چیز میں جاننا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے سارنی تم ان دونوں کی رہائش کا انتظام کر کے انھیں ان کی جگہ پہنچا دو..
سرروپ بابا نے میری بات سارنی تک پہنچا دی..
اپ لوگ ارام کریں صبح تفصیلی نشست ہوگی اپ سے میں نے پروفیسر اور گلوریا سے مخاطب ہوکر کہا..
دونوں ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے سارنی کی معیت میں ہال سے باہر چلے گئے..
میں سروپ بابا کی طرف متوجہ ہوگیا..
سردار..یہ قبیلہ سینکڑوں سال قبل کہیں دور کی زمینوں سے ہجرت کر کے یہاں اباد ہوا تھا..
اوپر سطح زمین پر شدید سردی اور جنگلی جانوروں سے تحفظ کے پیش نظر قبیلے کے بزرگ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جو انھیں سردی اور دوسری بلائوں سے محفوظ رکھے..
اسی تلاش میں انھیں ایک غار ملا وہ غار اس قبیلے کا زیر زمین رہنے کا نقطہ اغاز ثابت ہوا..
اس غار میں داخل ہوکر جیسے جیسے اگے بڑھتے ہیں راستہ تنگ ہوتا جاتا ہے اور وہ نیچائی کی طرف جاتا ہے..
ایک جگہ پہنچ کر راستہ ختم ہوجاتا ہے مگر وہاں سے ہوا اتی دیکھ کر اس جگہ پتھروں کو توڑا گیا تو اس کے پیچھے ایک طویل غاروں کا سلسلہ تھا جو ایک دوسرے سے منسلک تھے..
یہ سب قدرتی غار تھے بعد میں قبیلے والوں نے اسے مزید تراش کر کمروں کی شکل دی اور رہائش کے قابل بنایا..
جب قبیلے والے یہاں ائے تو ان کی تعداد دو سو سے بھی کم تھی جن ڈیں مرد عورتیں اور بچے سب شامل تھے..
اہستہ اہستہ ان کی تعداد بڑھتی گئی اور اج قبیلے کے افراد کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہوچکی ہے..
بابا اگر سینکڑوں سال پہلے یہ لوگ یہاں ائے تھے تو اب تک تو یہ قبیلہ ہزاروں افراد پر مشتمل ہونا چاہئے تھا میں نے سوال کیا..
شاید ایسا ہی ہوتا مگر ہمارے ہاں عورتوں کی تعداد بہت کم تھی اور دوسرا بیماریوں کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی باقاعدہ نہیں چند جڑی بوٹیوں سے علاج کیا جاتا ہے اس لئے مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہتی ہے ہمیشہ اور شاید قدرتی طور پر بھی قبیلے کی عورتوں میں افزائش کی شرح بہت کم ہے..
قبیلے میں اس وقت ساڑھے چھ سو مرد ہیں اور سوا دو سو عورتیں ہیں اور باقی بچے ہیں..
سوا دو سو عورتیں ساڑھے چھ سو مردوں کے لئے....تو کیا عورتیں جھگڑے کی بنیاد نہیں بنتیں یہاں میں نے حیرت سے پوچھا..
نہیں سردار عورتوں کے لئے قرعہ اندازی ہوتی ہے ہر سال سورج دیوتا کے تہوار کے موقع پر تمام عورتیں اپنا مرد ایک سال کے لئے چن لیتی ہیں..
اگر ایک سال بعد کوئی عورت حاملہ ہوجائے تو بچہ ہونے تک وہ اسی مرد کے ساتھ رہتی ہے ورنہ وہ کسی دوسرے کے حصے میں اجاتی ہے..
صرف سردار کا حق ہے کہ وہ ایک عورت رکھ سکے مستقل وہ بھی اس کی مرضی ہے وہ چاہے تو تہوار کے موقع پر عورت بدل لے..
سارنی اس دوران اکر اپنی نشت پر بیٹھ چکی تھی اور میں حیرت سے منہ پھاڑے ان لوگوں کے بے ڈھنگے اور کسی حد تک غیر اخلاقی معاملات سن کر ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا..
میں انھیں کیا سمجھاتا جو وحشی اور تہذیب و تمدن سے دور اج بھی جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے..
ٹھیک ہے بابا یہیں رہے گی سارنی جب تک میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا..
مجھے سب سے پہلے اپنے نانا سے ملنا ہے مجھے بتائیں کیسے ممکن ہے..
سردار تمھارے نانا اسی غار میں رہتے ہیں جہاں سے قبیلے میں داخلے کا راستہ سب سے پہلے ڈھونڈا گیا تھا..
اب اس راستے کو بند کردیا گیا ہے صرف چور راستہ ہے وہاں سے داخل ہونے کا..
تم جس وقت چاہو ان سے مل سکتے ہو..
بس تو سروپ بابا اس وقت اپ ارام کریں اور اپنی جگہ پر جائیں..
صبح اپنا سامان یہیں لے ائیں اور میرے قریب رہائش رکھیں اپنی..
اسکے بعد میں اٹھ کر اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جو پہلے سارنی کا کمرہ تھا..
کمرے میں داخل ہوکر میں بستر پر دراز ہوگیا..
عجیب الجھنوں میں پھنس گیا تھا میں یہاں اکر..
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس طرح کا قبیلہ ہوگا میرا اور مجھے یہ سب کچھ بھگتنا پڑے گا..
کچھ دیر بعد سارنی اندر داخل ہوئی اور مجھے دیکھنے لگی..
میں نے کہنے کو تو اسے کہ دیا تھا کمرے میں سونے کا..
مگر بستر پر اسے کیسے سلاتا ساتھ زمین پر لٹانے کا میرا دل نہیں مان رہا تھا اسے..
میں نے سائیڈ پر پڑا ایک بستر اٹھایا اور زمین پر بچھا دیا اور ساتھ اونی کمبل رکھ دیا..
میں نے اسے اوپر سونے کا اشارہ کیا اور خود زمین پر لیٹنے لگا..
مگر سارنی نے لپک کر میرے ہاتھ تھام لئے اور سر کے اشارے سے منع کرنے لگی..
اس کے منہ لگنا سر کا درد تھا میں نے اونی لبادہ اتار دیا اوربستر پر اگیا اب میں صرف پینٹ پہنے تھا..
میں نے اونی کمبل اوڑھ لیا میرا ارادہ تھا اگر سردی محسوس ہوئی تو واپس اونی کوٹ پہن لوں گا..
سارنی نے کچھ مایوسی سے مجھے دیکھا اور زمین پر لیٹ گئی..
میرے ذہن میں بے شمار الجھنیں تھیں مگر میں سب باتوں کو ذہن سے جھٹک کر سونے کی کوشش کرنے لگا..
میں نے دماغ کو ہدایات دیں اور کچھ دیر میں ہی گہری نیند سوگیا..
صبح میری انکھ کھلی تو سارنی کمرے میں موجود نہیں تھی..
میں کچھ دیر کمرے میں لیٹا رہا پھر اٹھ کر باہر ہال میں اگیا جہاں سرداری نشت تھی..
سارنی اور سروپ بابا وہیں موجود تھے مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور تعظیم کے انداز میں سر جھکایا..
سروپ بابا نے سارنی کے کہنے پر ناشتے کا پوچھا مگر میں نے سارنی کو معاملات سنبھالنے کا کہا اور سروپ بابا کو غار کی طرف چلنے کا کہا جہاں میرے نانا موجود تھے..
Going to meet with Nana G
سروپ بابا مجھے لے کر ہال سے باہر اگئے ہال کے دروازے پر دو پہریدار کھڑے تھے جو مجھے دیکھتے ہی گھٹنوں کے بل جھک گئے..
وہاں سے چلتے چلتے ہم ایک راہداری یا سرنگ نما جگہ پہنچے جیسے جیسے ہم اگے بڑھے وہ سرنگ رفتہ رفتہ تنگ ہوتی جارہی تھی..
جگہ جگہ پہریدار نظر ائے جو مجھے دیکھ کر تعظیم دیتے میں ان سب کے جواب میں سر ہلاتا ہوا سروپ بابا کے ساتھ اگے بڑھتا رہا..
شاید سب لوگوں کو میرے بارے میں خبر ہوچکی تھی..
کافی دیر چلنے اور کئی موڑ مڑنے کے بعد ہم ایک جگہ پہنچے جہاں سے اگے دیوار اگئی تھی اور راستہ بند تھا...
سروپ بابا نے وہاں موجود دیوار میں لگے لوہے کے کڑے کو زور سے کھینچا تو ایک کونے سے دیوار اپنی جگہ سے کھسک گئی..
وہاں صرف اتنا فاصلہ تھا کہ ایک شخص پھنس کر گزر سکتا تھا..
سروپ بابا اس سے گزر کر دوسری طرف چلے گئے..
میں بھی ان کے پیچھے گزر کر دوسری طرف پہنچ گیا..
جیسے ہی میں نے دوسری طرف قدم رکھا شاید مجھے زندگی کا سب سے بڑا حیرت جھٹکا لگا میں اپنی جگہ ساکت ہوگیا..
Kesa laga ye episode. 🥀🌺😊🌻🥀
Write here your review about post.