Novel Sultanat 5

Fayaz Ali
0

 سلطنت

قسط نمبر 26 تا 34

تحریر : ارشد احمد

Novel Sultanat 

یہ ایک سرنگ نما تنگ سا راستہ تھا..

سامنے ہی ایک بوڑھا شخص موجود تھا جسکی انکھوں میں دو سورج جل رہے تھے..

Telepathist Releases light rays from eyes


یقینا وہ سورج بینی کا ناقابل یقین حد تک ماہر تھا اور سورج اس نے اپنی انکھوں میں اتار لیا تھا..

اس بوڑھے کو میری امد کی خبر ہوگئی تھی شاید اس لئے وہ غار سے یہاں تک اگیا تھا..

میری نظریں جیسے مقناطیس کی طرح اس کی انکھوں سے چپک گئی تھیں..

میں نے نظریں ہٹانے کی بے حد کوشش کی مگر میری انکھوں میں جلتی شمع کی اسکی انکھوں کے سورجوں کے سامنے رائی برابر بھی حیثیت نہیں تھی..

میرے لئے سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ بوڑھا وہی تھا جسے میں بے بارہا خواب میں دیکھا تھا..

خوش امدید میرے بیٹے..

مجھے اپنے دماغ میں اس کی اواز گونجتی ہوئی محسوس ہوئی..

یا حیرت یہ کیا ہے..

یہ جملہ اس کی زبان سے ادا نہیں ہوا تھا..

کیا یہ شخص ٹیلی پیتھی جانتا ہے..

کیا یہ میرے نانا ہیں..

ہاں میرے بچے تم درست سوچ رہے ہو..وہی اواز میرے دماغ میں گونجی..

اچانک مجھے لگا ان انکھوں میں جلتے سورج کی روشنی کچھ کم ہوگئی ہے..

نانا نے اپنے بازو پھیلا دئے میں اگے بڑھا انکے سینے سے لگ گیا..

بہت دیر وہ میرا سر تھپکتے اور پشت سہلاتے رہے..

سروپ بابا خاموشی سے ایک طرف کھڑے مسکرا رہے تھے..

میں ان کے سینے سے الگ ہوا تو انھوں نے میرا ہاتھ تھام لیا اور پلٹ کر اگے بڑھنے لگے..

سروپ بابا ہمارے پیچھے تھے..

ہم بہت دیر چلتے رہے وہ سرنگ نما راستہ کھلا ہوتا جارہا تھا..

اخرکار ہم ایک غار میں پہنچ گئے..

یہ تنگ دہانے والا وسیع و عریض غار تھا..

یہاں کھانے کے برتن, اونی بستر, مشعلیں وغیرہ موجود تھیں..

یقینا نانا مستقل یہیں رہائش پزیر ہونگے..

نانا مجھے لے کر غار کے دہانے کی طرف چلتے رہے..

جیسے ہی ہم نے غار کے دہانے سے باہر قدم رکھا..

سرد برفیلی ہوائوں نے ہمارا استقبال کیا..

At White Galasiiors Mountains

تاحد نگاہ سفید برف کی چادر نے زمین کو ڈھکا ہوا تھا..

غار سے کچھ فاصلے پر ایک چٹانی پتھر پر کوئی دوشیزہ یوگا کے اسن میں گم تھی..

اسکے لمبے سیاہ بال ہوا میں لہرا رہے تھے..

اس نے روایتی موٹے اونی کوٹ کے بجائے باریک لبادہ پہنا ہوا تھا..

حیرت انگیز طور پر جما دینے والی سردی کا اس پر کوئی اثر نظر نہیں ارہا تھا..

اسکی پشت ہماری جانب تھی..

میں نے سوالیہ نظروں سے نانا جان کی طرف دیکھا..

ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور دنیا جہان کی محبت سمٹ ائی تھی..

میری نواسی "پلواشہ"...

نانا جان نے پہلی بار ہونٹوں سے جملہ ادا کیا..

میں حیرت اور تعجب سے پلواشہ کو دیکھنے لگا جو سردی سے بے نیاز شاید سانس کی مشق میں مصروف تھی..

کچھ دیر ہم وہیں کھڑے رہے شاید پلواشہ کی مشق مکمل ہوچکی تھی..

اس نے دھیرے سے اپنا اسن ختم کیا اور پتھر سے نیچے قدم رکھا اور کھڑی ہوگئی..

جیسے ہی وہ ہماری طرف پلٹی میری انکھیں خیرہ ہوگئیں..

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہماری طرف بڑھ رہی تھی..

اور میں استعجاب کے عالم میں اسے تک رہا تھا..

مجھے یقین نہیں تھا کہ دنیا میں اس سے زیادہ حسین اور خوبصورت لڑکی کہیں اور کوئی ہو سکتی ہے..

کمر تک گھنے لمبے ہوا میں لہراتے گیسو..

بڑی بڑی غزالی انکھیں سرخ قندھاری اناروں جیسے عارض گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ وہ سراپا حسن کا شاہکار تھی..

قدرت نے ساری خوبصورتی سارا حسن اس کے چہرے میں سمو دیا تھا..

وہ چلتی ہوئی ہمارے پاس اکھڑی ہوئی مگر میں اس کے رعب حسن سے مغلوب اسے دیکھے جارہا تھا..

لگتا ہے انھیں سکتہ ہوگیا ہے نانا جان..

میں چونک کر جیسے خوابوں کی دنیا سے باہر اگیا..

پلواشہ کے چہرے پر خوبصورت مسکان تھی..

وہ نانا جان کے سینے سے لگ گئی..

انھوں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور میری طرف مڑے..

یہ تمھارے...

ہاں جانتی ہوں انھیں یہ وہی ہیں جن کا اپ بتایا کرتے تھے پلواشہ نے نانا جان کی بات کاٹ دی..

میں حیرانگی سے کبھی نانا جان اور کبھی پلواشہ کو دیکھ رہا تھا..

دونوں حیرت انگیز طور پر ہماری زبان میں بات کر رہے تھے..

نانا جان نے سیدھے ہاتھ میں پلواشہ کا ہاتھ تھاما اور الٹے ہاتھ میں میرا ہاتھ تھام کر واپس غار کے اندر قدم بڑھا دئے..

کچھ ہی دیر میں ہم غار میں ایک فرشی کھالوں کی نشست پر بیٹھے تھے..

بیٹے ناشتے کا انتظام کرو نانا جان پلواشہ سے مخاطب ہوئے..

وہ سعادت مندی سے اٹھ کر غار کے ایک کونے کی طرف بڑھ گئی..

سروپ تم واپس قبیلے جائو گے علی کچھ وقت یہیں گزارے گا اس کی غیر موجودگی میں سارنی ذمہ داریاں سنبھالے گی..نانا جان نے سروپ بابا سے مخاطب ہوکر کہا..

سروپ بابا نے سر جھکا دیا..

اسی لمحے مجھے اپنے دماغ میں نانا جان کی اواز گونجتی محسوس ہوئی..

بیٹا سروپ کے جانے کے بعد ہم بات کریں گے تم محسوس ناں کرنا..

ٹھیک ہے نانا جان میں نے سوچ میں ہی جواب دیا..

یہ بہت انوکھا اور ناقابل یقین تجربہ تھا..

نانا جان مجھ سے سوچ کے ذریعے گفتگو کر رہے تھے..

تمھیں تجسس ہوگا سروپ نے تمھیں بتایا تھا میری ایک ہی بیٹی تھی جو قبیلے میں بیاہی گئی تھی جس سے یہ پلواشہ ہے..

تو تمھاری ماں کون تھی اس سے میرا کیا رشتہ تھا میں تمھارا نانا کیسے ہوں..

جانتا ہوں بہت سے سوال ہیں تمھارے ذہن میں..

ناشتے کے بعد ہم اس پر گفتگو کریں گے..

نانا جان مجھ سے مخاطب ہوکر بولے..

مجھے اندازہ ہوا شاید وہ سروپ بابا کے سامنے بات نہیں کر رہے یا شاید کوئی اور بات ہو..

میں نے ان کی بات کے جواب میں سر ہلا دیا..

اتنی دیر میں پلواشہ ناشتہ لے ائی..

میں نے حیرانگی سے دیکھا ناشتے کے نام پر چار پیالوں میں دودھ اور خشک میوہ جات تھے جو اس نے درمیان میں رکھ دئے اورنانا جان کے پہلو میں بیٹھ گئی..

یہ یاک کا دودھ ہے یہی ہمارا ناشتہ ہے نانا جان نے مسکراتے ہوئے کہا..

نانا جان نے ایک پیالہ اٹھا کر میری طرف بڑھایا..

میں نے گھونٹ بھر کر دیکھا عجیب سا ذائقہ تھا میں نے گھونٹ گھونٹ کر کے پینا شروع کردیا..

ناشتے کے دوران قبیلے کے حوالے سے چند باتیں ہوئیں ناشتہ تھا ہی کیا فورا ہی ختم ہوگیا..

سروپ بابا اٹھ کھڑے ہوئے اور اجازت لے کر غار کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے..

پلواشہ نےبرتن سمیٹ دئے اور چند لمحوں بعد اکر نانا جان کے پاس بیٹھ گئی..

علی بیٹا میری زندگی کا اختتام ہے نانا جان کے بات شروع کرتے ہی پلواشہ نے نانا جان کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا..

نانا جان نے پلواشہ کو اپنے بازو میں سمیٹ کر اس کے بالوں پر پیار کردیا اور اہستگی سے اس کا ہاتھ ہونٹوں پر سے ہٹا دیا..

نانا جان ایسی باتیں مت کریں میں رو دوں گی..

پلواشہ مستقبل کو مکمل جاننے کا دعوی دنیا کے کسی بھی علم کو استعمال کر کے نہیں کیا جاسکتا..

مگر کسی حد تک انے والے حالات اور وقت کے بارے میں ہم جان سکتے ہیں..

علی تمھارے خواب میں اکر تمھیں بلانے کا مقصد یہی تھا..

میرے ستارے کہتے ہیں میری زندگی کا اختتام قریب ہے..

میری بد نصیب بیٹی تمھاری ماں جسے میں بھرپور پیار نہیں دے سکا ناں باپ کے حقوق ادا کر سکا مگر میری خواہش تھی کہ میں اپنے نواسے کو ضرور اسکا حق دوں..

قبیلے میں جیسے سردار ایک عورت مستقل رکھ سکتا ہے اسی طرح معبد کے بڑے پجاری کو بھی یہ حق حاصل ہے..

میں پہلے معبد کا بڑا پجاری نہیں تھا..

تب قبیلے کے دستور کے مطابق ایک سال کے لئے ایک عورت اپنے پاس رکھ سکتا تھا..

اسی دوران تمھاری ماں کی پیدائش ہوئی..

اسکے کچھ برسوں بعد میں پجاری بنا تو مجھے ایک عورت کو رکھنے کا حق حاصل ہوگیا میں تمھاری ماں کی ماں یعنی نانی کو ہی زندگی بھر کا ساتھی چنتا..

مگر تب تک ایک بیماری میں وہ اپنی زندگی ہار چکی تھی..

میں نے پجاری بننے کے بعد ایک دوسری عورت کو اپنے لئے زندگی بھر کے لئے چنا جس سے پلواشہ کی ماں پیدا ہوئی..

شادی کی عمر ہونے کے بعد سردار نے تمھاری ماں کو زندگی بھر کے لئے اپنی عورت چن لیا تھا..

میری دوسری بیٹی کو قبیلے کے پہریداروں اور جنگجووں کے سربراہ نے شادی کی عمر کو پہنچتے ہی پہلی بار چنا..

اور پہلے ہی سال وہ حاملہ ہوگئی جب پلواشہ پیدا ہوئی تو وہ زندگی سے گزر گئی..

اس کے کچھ عرصے بعد ہی وہ خونی بغاوت ہوئی جس میں تمھارا اور پلواشہ کا باپ مارے گئے..

تمھاری ماں کو تمھارے باپ نے مقدس انگوٹھی دے کر یہاں سے مہذب دنیا بھیج دیا تھا..

میں تمھاری ماں سے ٹیلی پیتھی کے ذریعے رابطے میں رہتا تھا..

میرے ہی مشورے پر وہ خاموشی سے زندگی گزارتی رہی..

میری خواہش تھی تم پڑھ لکھ کر مہذب دنیا کے طور طریقے سیکھ لو تو اکر قبیلے کی سرداری سنبھالو..

مگر تمھارے ساتھ عجیب واقعہ ہوا اسمانی بجلی گرنے سے تمھارا دماغ اتنا فعال ہوگیا کہ اگلے شخص کے دماغ میں داخل ہوسکے..

مگر عملی ٹیلی پیتھی سے تم بہت دور تھے یہ تمام حالات میرے علم میں تھے..

اسی دوران پروفیسر نے تم پر توجہ کی اور تم عملی طور پر چند قدم اور اگے بڑھ گئے..

مگر ٹیلی پیتھی بالکل مختلف علم ہے اگر یہ اتنا اسان ہوتا اور مشقوں سے ٹیلی پیتھی سیکھی جا سکتی تو ہزاروں لوگ سیکھ چکے ہوتے..

تم اپنی منزل سے چند قدم دور ہو مگر میں تمھیں یہ سکھا نہیں سکتا دان کر سکتا ہوں..

میری موت تمھاری زندگی بنے گی..

اس بات کا کیا مطلب ہے نانا جان میں نے حیرانگی سے پوچھا..

وقت ائے گا تو جان جائو گے علی بیٹا کچھ چیزیں اپنے وقت پر ہی پتہ چلنے میں بہتری ہوتی ہے..

تمھاری ماں کو میں نے بتا دیا تھا کہ اس کی زندگی مختصر ہے اب وقت اگیا ہے کہ علی سب کچھ جان لے اور میری پیش گوئی درست نکلی تمھاری ماں نہیں رہی..

میں بدنصیب باپ اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پایا..نانا جان کی اواز بھرا گئی..

چند لمحے رک کر انھوں نے پھر بولنا شروع کیا..

میں تمھاری طرف سے غافل نہیں تھا مگر میں گیارہ دن کے ایک عمل میں مصروف تھا اسی دوران تم یہاں اگئے..

علی بیٹا میری زندگی کا اختتام ہے مجھے پلواشہ جان سے عزیز ہے..

پلواشہ اس سال شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے..

چند دن بعد سورج دیوتا کا تہوار ہے میری خواہش ہے تم اسے اپنی عورت چن لو.. 

میں نے پلواشہ کو دیکھا جس نے کے چہرے پر حیاء کے تاثرات تھے اس نے سر جھکا لیا..

ناناجان میری خوش نصیبی ہوگی کہ پلواشہ میری زندگی کا حصہ بنے..

اگرچہ میں نے شادی کے بارے میں اج تک سوچا نہیں مگر اپ بے فکر رہیں پلواشہ اب میری ذمہ داری ہے..

میری باتوں سے نانا جان کی انکھوں میں طمانیت نظر انے لگی..

مجھے کبھی ناں کبھی کسی سے تو شادی کرنی تھی..

تو پلواشہ کیوں نہیں میرے خاندان کی تھی اور قدرت نے اسے بے انتہا حسن سے نوازا تھا..

مگر یہ قبیلہ میرا مستقبل نہیں تھا ناں یہاں ہمیشہ رہنا میرے لئے ممکن تھا..

نانا جان کیا ہم اور ہماری نسلیں انھی زیرزمین غاروں میں زندگی گزاریں گے..

یہاں ہم زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں..

تہذیب و تمدن سے کوسوں دور ہیں..

بیٹا جب تمھارے بابا نے تمھاری ماں کے ساتھ تمھیں مہذب دنیا بھجوایا تھا میں نے تب سوچا تھا کہ تم واپس ائو گے تو قبیلے والوں کا مستقبل طے کرو گے..

مگر جو تم کہ رہے ہو اس کے لئے وسائل اور بے انتہا پیسہ درکار ہے اور یہ سب ہو بھی جائے تو بھی سب کچھ اتنا اسان نہیں ہوگا..

ناناجان میں نے خزانے کے بارے میں سنا ہے کیا وہ خزانہ قبیلے کے مستقبل کے لئے کام نہیں اسکتا کیا اس کی مدد سے ہم اپنے حالات نہیں بدل سکتے..

بدل سکتے ہیں اگر تم میں ہمت اور حوصلہ ہے تو..

اس خزانے کو حاصل کرنے کے لئے کئی سردار اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں..

وہ خزانہ اس طرح محفوظ کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اسانی سے اس تک نہیں پہنچ سکتا..

راستے میں تیزابی دلدلیں ہیں طرح طرح کی رکاوٹیں ہیں انھیں عبور کرنا اسان نہیں..

نانا جان میں کوشش کرنا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے اجازت دیں..

علی بیٹا چاہتا تو میں بھی ہوں مگر یہ اتنا اسان ہوتا تو اب تک خزانہ حاصل کیا جاچکا ہوتا..

نانا جان دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے..

میری اس سلسلے میں قبیلے میں قید پروفیسر سے سرسری بات ہوئی ہے..

میں چاہتا ہوں مجھے کوشش کر لینے دیں..

اپ گلوریا اور پروفیسر کو یہاں بلوائیں..

پروفیسر اثار قدیمہ کا ماہر ہے اور نقشہ پڑھ سکتا ہے..

شاید باہمی گفتگو سے ہم کسی بہتر نتیجے پر پہنچ سکیں..

میری بات سن کر نانا جان نے انکھیں بند کرلیں..

چند لمحوں بعد انھوں نے انکھیں کھولیں اور مسکراتے ہوئے کہا میں نے بلوایا ہے کچھ دیر تک وہ یہاں اجائیں گے..

مگر ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے پہریدار ضروری ہیں..

ٹھیک ہے نانا جان جیسا اپ بہتر سمجھیں اپ نے شاید ٹیلی پیتھی سے کام لیا ہے..

ہاں بیٹا میں نے سروپ سے کہا ہے قبیلے میں صرف وہی جانتا ہے اس بارے میں..

مجھے بتائو تم کیا سوچتے ہو کیا ہے تمھارے ذہن میں قبیلے کے حوالے سے..

اپ میرا ذہن پڑھ سکتے ہیں نانا جان میں نے مسکراتے ہوئے کہا..

ہاں مگر میں چاہتا ہوں پلواشہ بھی ہماری گفتگو میں شریک رہے..

نانا جان میں چاہتا ہوں ہم سطح زمین پر باقاعدہ ابادی بنا کر گھر بنا کر رہیں..

ان غاروں کو ایسے ہی محفوظ رہنے دیا جائے کبھی کسی خطرے کی صورت میں یہاں پناہ لی جاسکتی ہے..

مگر بیٹا حکومت کی ملکیت ہوتی ہے ان کے مسائل پھر یہاں کوسوں دور تک کوئی ابادی نہیں..

گھر بنانے اور قبیلہ اباد کرنے کے لئے سازو سامان جہاں سے ملے گا وہ قریب ترین بھی چار دن کے سفرکی دوری پر ہے..

پھر وہاں سے اتنا سامان لانا پھر گھر بنانا ہمارے پاس کوئی ہنر مند نہیں ان سب چیزوں کے لئے..

نانا جان دعا کریں ہم خزانہ حاصل کرسکیں یہ تمام مسائل تو ضرور ہیں مگر حل ہوسکتے ہیں..

ہم پہلے دن سے ہی بے شمار گھر اور قبیلہ اباد کرنا نہیں شروع کریں گے..

ابادی کے لحاظ سے حد بندی کریں گے..

سب سے پہلے ہمیں ایسی چار دیواری نما حد بندی بنانی ہوگی جس کے درمیان گھر اباد ہوسکیں..

پھر اسکے بعد ایک ایک کر کے گھر بنائیں گے اولین صرف پہرے دار ان گھروں میں رہیں گے اہستہ اہستہ مرحلہ وار ہم تمام کام کریں گے..

میری بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ سروپ بابا اسی سرنگ نما راستے کی طرف سے غار میں داخل ہوئے..

سروپ بابا کے پیچھے پروفیسر ڈگلس اور گلوریا تھے اور ان کے پیچھے چار محافظ جنہوں نے ہاتھ میں کلہاڑیاں تھامی ہوئی تھیں..

محافظوں نے مجھے دیکھ کر تعظیم پیش کی..

سروپ بابا نے انھیں کچھ ہدایات دیں..

چاروں پہریدار غار کے دہانے سے باہر چلے گئے..

محافظوں کو ہدایت دے کر سروپ بابا واپس سرنگ والے راستے کی طرف مڑ گئے وہ واپس قبیلے جارہے تھے..

نانا جان نے انھیں نہیں روکا وہ بہتر سمجھتے ہونگے ان کا یہاں ٹھرنا درست ہوگا یا نہیں..

پروفیسر اور گلوریا کچھ حیرت زدہ تھے..

میں نے مسکراتے ہوئے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ ہمارے دائیں طرف اکر بیٹھ گئے..

نانا جان اٹھ سرنگ والے حصے کی طرف چلے گئے..

چند لمحوں بعد واپس ائے تو ان کے ہاتھ میں لکڑی کا ایک منقش بکس تھا..

واپس اپنی نشست پر بیٹھ کر نانا جان پروفیسر سے مخاطب ہوئے..

پروفیسر ڈگلس تم یہاں خزانے کی تلاش میں ائے تھے تم لوگوں کے پاس خزانے کا ہاتھ سے بنا نقشہ موجود تھا کیا تم نے وہ نقشہ پڑھ لیا تھا..

نوے فیصد..پروفیسر نے جواب دیا..اس میں سے کچھ نشانات کا مطلب میں نہیں سمجھ پایا تھا..

تم جھوٹ بول رہے ہو پروفیسر نانا جان اچانک غصے میں اگئے..

پروفیسر نے گھبرا کر نانا جان کو دیکھا..

تم مکمل نقشہ پڑھ چکے ہو اور سمجھ چکے ہو صرف ہمیں اپنے قابو میں رکھنے کے لئے تم جھوٹ بول رہے ہو..

تم شاید قبیلے میں ہونے والا سلوک بھول گئے ہو کیا تم واپس قید خانے میں جانا چاہتے ہو نانا جان بدستور غصے میں تھے..

میں پہلی اور اخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں اج کے بعد تم نے کوئی غلط بیانی کی یا جھوٹ بولا تو انجام کے ذمہ دار تم خود ہوگے..

پروفیسر نے معذرت خواہانہ انداز میں سر جھکا لیا یقینا اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا..

اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا نانا جان اسکی سوچ جان سکتے ہیں..

جیسا کہ تم جانتے ہو علی قبیلے کا نیا سردار ہے..

ہم چاہتے ہیں تم اور یہ لڑکی خزانے کی تلاش میں ہماری مدد کریں..

یہ کام تم سے زبردستی بھی لیا جا سکتا ہے مگر ہم ان لوگوں کی قدر کرتے ہیں جو ہمارے کام ائیں..

وہ خزانہ قبیلے کی امانت ہے مگر پھر بھی اگر ہم خزانہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تو تمھیں اور لڑکی کو اس خزانے سے معقول انعام دیا جائے گا..

اور وہ معقول انعام اتنا ہوگا کہ تمھیں زندگی بھر اور کچھ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی..

میں نے پروفیسر اور گلوریا کی طرف دیکھا دونوں کی انکھیں چمک رہی تھیں..

ہم چاہتے ہیں باقاعدہ سرداری کی رسم انجام دینے سے پہلے یہ معاملہ نپٹا لیا جائے..

اس سلسلے میں ضروری سازو سامان تم لوگ لے کر ائے تھے تمھاری ٹیم تو ختم ہوچکی مگر وہ سب سازوسامان محفوظ ہے..

مزید بھی جس چیز کی ضرورت ہو بتائو اس کا بھی انتظام کردیا جائے گا..

میں نقشہ دیکھنا چاہ رہا ہوں پروفیسر نے نانا جان سے مخاطب ہوکر کہا..

نانا جان نے وہ منقش لکڑی کا باکس کھولا اور اس میں سے چمڑے پر بنا ہوا ایک نقشہ نکال کر پروفیسر کی طرف بڑھا دیا..

پروفیسر نے وہ نقشہ درمیان میں زمین پر بچھا دیا اور ہم بہت دیر تک راستے میں انے والی مختلف رکاوٹوں کے بارے میں گفتگو کرتے رہے..

اخرکار طے ہوا کہ میں, پروفیسر, گلوریا اور پانچ لوگ اس مہم کو سر انجام دیں گے..

پلواشہ نے ساتھ جانے کی ضد کی مگر نانا جان نے سختی سے منع کردیا..

ابھی صبح کا وقت تھا طے ہوا ٹھیک دو گھنٹوں بعد ہم یہاں سے روانہ ہونگے..

پروفیسر نے وہ سامان منگوانے کا کہا جو اس کی ٹیم لے کر ائی تھی..

نانا جان نے چند لمحوں کے لئے انکھیں بند کیں..

میں سمجھ گیا وہ سروپ بابا کو ہدایات دے رہے ہیں مگر پروفیسر اور گلوریا کے علم میں یہ نہیں تھا..

ہم اس مہم کے مختلف پہلوئوں پر بات کررہے تھے کہ سروپ بابا پانچ لوگوں کے ساتھ وہاں پہنچے جنھوں نے بڑے بڑے تھیلے اٹھائے ہوئے تھے..

غار میں پہنچ کر سب بے تعظیم دی اور اپنا تعارف کروایا..

ہم نے تھیلوں کے سامان کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا..

ہر ایک کے لئے سر پر پہننے والی ایک کیپ تھی جس میں ٹارچ لگی تھی جو سیلز سے روشن ہوتی تھی..

اسکے علاوہ ہر شخص کو ایک الگ ٹارچ اورسیلز کی دو جوڑیاں دی گئیں..

رسیاں, میخیں, کیل اور ایسا بہت سا سامان ہمارے سامنے موجود تھا جسے ہم تقسیم کرتے رہے..

باقی سامان پانچ حصوں میں کر دیا گیا جسے ہمارے ساتھ جانے والے پانچوں لوگوں نے اٹھانا تھا..

میں نے نانا جان کی طرف دیکھ کر سر پر انگلی رکھی اور اشارہ کیا..

نانا جان فورا میرا مطلب سمجھ گئے اگلے ہی لمحے انکی اواز میرے دماغ میں گونج رہی تھی..

کیا بات ہے علی بیٹا نانا جان نے پوچھا..

نانا جان ایک تو اپ مستقل پروفیسر کے دماغ میں رہیں گے اگر اسکے ذہن میں کچھ فتور ائے تو مجھے بتائیں گے..

دوسرا اگرچہ ہمیں صرف گلوریا اور پروفیسر کو دیکھنا ہے مگر پھر بھی ایک قابل اعتماد اور وفادار محافظ ساتھ مزید شامل کردیں جس کا کام صرف حفاظت کا ہو..

ٹھیک ہے بیٹا سہی سوچا ہے تم نے..

علی میں اپ سے بات کرنا چاہ رہی ہوں اگر کچھ وقت ہو تو..

اچانک میں پلواشہ کی اواز سن کر چونک پڑا..

میں بہت دیر سے محسوس کر رہا تھا پلواشہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے مگر تیاریوں کے معاملات میں مصروفیت کی وجہ سے میں اس پر دھیان نہیں دے پایا..

ہاں ضرور پلواشہ بس تیاریاں مکمل ہوجائیں پھر سکون سے بات کرتے ہیں..

پلواشہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اگئی..

ادھے گھنٹہ مزید لگ گیا سب تیاریوں میں اخر کار ہم سب چلنے کے لئے تیار ہوگئے..

باہر کھڑے چار محافظوں میں سے نانا جان نے ایک کو حفاظت کے لئے ہمارے ساتھ کردیا تھا..

میں نے پلواشہ سےباہر چلنے کہا اور ہم چلتے ہوئے غار کے دہانے سے باہر اگئے..

باہر اکر میں نے دھیرے سے پلواشہ کا نرم و نازک ہاتھ تھام لیا..

پہریدار غار کے دہانے پر مستعد تھے ہمیں دیکھ کر انھوں نے تعظیم پیش کی میں سر ہلاتا ہوا پلواشہ کے ساتھ اگے بڑھ گیا..

جس پتھر پر پلواشہ اپنی مشقیں کرتی تھی ہم چلتے ہوئے اس پتھر کے پاس پہنچے اور پہلو بہ پہلو اس پر بیٹھ گئے..

علی میں نے اپ کو اج پہلی بار دیکھا اور جانا ہے مگر نانا جان برسوں سے اپ کے بارے میں ہر بات مجھے بتاتے رہے ہیں..

میں نے تصور میں جس ائیڈیل کا بت تراشا تھا اپ بالکل ویسے ہی ہیں دراز قد, وجیہ, مردانہ صفات کے حامل, مظبوط قوت فیصلہ, حوصلہ مند اور جی دار..

اپ اج ملے ہیں اور اج ہی ایک ایسی مہم پر جارہے ہیں جس میں بے شمار لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں..

میں اپ کو روکوں گی نہیں میں جانتی ہوں اپ سب سے جدا ہیں سب سے الگ ہیں صرف ایک یقین دہانی کرانا چاہتی ہوں..

میں اپکی تھی...اپ کی ہوں اور ہمیشہ اپ کی رہوں گی اپ میری زندگی میں رہیں گے تب بھی اور دیوتا ناں کرے اپ کق کچھ ہوجائے تب بھی اخری سانس تک اپ کے نام پر زندگی گزاروں گی..

مجھے پلواشہ پر بے انتہا پیار اگیا..

میں نے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اسکا چاند سا چہرہ تھام کر ماتھے پر بوسہ دے دیا..

پلواشہ تمھاری محبت میری طاقت ہے جو مجھے ہر پل یقین دلائے گی کہ مجھے لوٹ کر انا ہے کوئی روح کی گہرائیوں سے مجھے چاہتا ہے اس کے لئے مجھے پلٹنا ہے..

میرا وعدہ ہے میں ضرور واپس ائوں گا اور کامیاب لوٹوں گا..

پلواشہ نے سرشاری سے میرے کندھے سے اپنا سر ٹکا لیا..

ہبرفیلی ہوائیں ہماری محبت پر مسکراتی اٹھکھیلیاں کرتی رہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ میں گم برف پوش وادی میں مستقبل کے سنہرے خواب بننے لگے..

کچھ دیر ہم ایک دوسرے میں کھوئے رہے..

میں پلواشہ کی محبتوں اور چاہتوں کو خود میں اتارتا رہا..

زندگی میں پہلی بار محبت کی کونپل دل میں پھوٹی تھی اور لمحوں میں تناور درخت بن گئی تھی..

بہت انوکھا احساس تھا کہ کوئی اپ کو تن من دھن سے چاہتا ہے اپ کی سانسوں اپ کی دھڑکنوں سے جڑا ہے..

دل چاہ رہا تھا کہ یہ پل یہیں ٹھر جائیں اور ہم دونوں محبت میں امر ہوجائیں..

مگر مجھے احساس تھا نانا جان اور دیگر لوگ ہمارے منتظر ہونگے..

میں نے اہستگی سے پلواشہ کا سر کندھے سے ہٹایا اور اس کا ہاتھ تھام کر کھڑا ہوگیا..

کچھ دیر میں ہم اپنے ساتھیوں کے درمیان تھے..

اب ایک اور مسئلہ کھڑا ہوا ان پانچوں قبیلے والوں کی زبان ہم میں سے کوئی نہیں سمجھتا تھا..

انھیں ہدایات کیسے دی جاتیں مجبورا سروپ بابا کو ساتھ لیا گیا..

نانا جان نے ماتھا چوم کر اور دعائیں دے کر رخصت کیا..

پلواشہ نے الوداع کہنے سے انکار کردیا کہ تھوڑی دیر کی جدائی ہے الوداع کس لئے..

پاگل لڑکی اپنے جذبات اورشدتوں کے ساتھ میرے وجود کا حصہ بن گئی تھی..

اچھا لگ رہا تھا اس کا پیار اس کا یقین اور احساس..

میں نے کیپ سر پر پہنی ہوئی تھی جس پر ٹارچ لگی تھی اور ایک رسی کا بنڈل اور دیگر سامان کندھے پر تھا..

ہم لوگ چلتے ہوئے غار سے باہر اگئے جہاں سرد برفیلی ہوائوں نے ہمارا استقبال کیا..

پروفیسر سب سے اگے تھا اس کے بعد میں اور گلوریا اور اس سے پیچھے سروپ بابا اور باقی تمام لوگ..

پروفیسر کے ہاتھ میں قطب نما تھا اور وہ شمال کی جانب بڑھ رہا تھا..

تقریبا پندرہ منٹ سفر کرنے کے بعد ہم ایک چٹان کے پاس پہنچے..

اس چٹان میں ایک تنگ سی درز تھی جس سے ہمیں اندر داخل ہونا تھا..

تمام لوگ باری باری اندر داخل ہوئے اندر ملگجا اندھیرا تھا یہ چوڑائی میں ایک چھوٹا سا غار تھا مگر لمبای میں طویل تھا..

ہم اگے بڑھتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں چٹانی دیوار تھی..

یہ سپاٹ دیوار نہیں تھی بلکہ پتھر چن کر زمین سے چھت تک اسے بنایا گیا تھا..

پروفیسر نے نقشہ تھاما ہوا تھا..

اب ہر شخص محتاط رہے ایک غلط قدم ہم سب کو موت کے منہ میں لے جائے گا پروفیسر سب سے مخاطب تھا..

سروپ بابا نے اپنی زبان میں قبیلے والوں کو بھی سمجھا دیا..

علی پروفیسر مجھ سے مخاطب ہوا...

یہ دیوار پندرہ فٹ چوڑی اور ساڑھے سات فٹ اونچی ہے اس میں کل دو سو سترہ پتھر ہیں..

نقشے کے مطابق دائیں سے بائیں چھوتھی لائن کے بیالیسویں اور نویں لائن کے اوپر سے نیچے ایک سو سترھویں پتھر پر ایک ساتھ ضرب لگانے سے یہ دیوار ٹوٹے گی..

اگر پتھروں کی ترتیب غلط ہوئی تو یہ پوری چٹان ہمارے سر پر اگرے گی اور ہم سب پتھروں کی اس قبر میں دفن ہوجائیں گے اور یہ راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا..

مجھے اس میں کچھ خاص مشکل نظر نہیں ارہی پروفیسر پتھر بڑے ہیں اور قطاروں میں ہیں..

گنتی کرنے اور نشان لگانے میں بس وقت لگے گا..

نہیں علی دیوار بنانے والے بیوقوف نہیں ہونگے ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنا ہوگا..

ٹھیک ہے پروفیسر اپ اپنا کام کریں مکمل تسلی کر کے ہی ہم ضرب لگائیں گے..

پروفیسر نے تھیلے سے موٹا قلم نکالا اور احتیاط سے پتھروں پر نمبر لگانے لگا گلوریا اس کام میں اس کی مدد کر رہی تھی..

میں قریب کھڑا ہوکر اس کے کام کا جائزہ لے رہا تھا..

گنتی غلط ہونے کی صورت میں غلط پتھر پر ضرب لگتی اور ہم سب مرحومین کی صف میں شامل ہوجاتے..

اچانک گلوریا نے دیوار کے کونے کی طرف پروفیسر کی توجہ دلائی اور ہم سب کے دل دھک سے رہ گئے..

پتھروں کی دوسری لائن میں جہاں دیوار دائیں سے بائیں ختم ہورہی تھی وہاں کونے پر ایک ادھے انچ کا پتھر چنا ہوا تھا جو پاس جاکر بغور دیکھنے پر بھی مشکل نظر اتا تھا..

پروفیسر اس وقت چوتھی لائن میں نمبر لگانے میں مصروف تھا یقینا اس نے وہ پتھرمس کر دیا تھا..

ایک پتھر مس ہونے سے تمام حساب غلط ہوگیا تھا..

میں نے پروفیسر کی طرف دیکھا سردی میں بھی اس کے ماتھے پر پسینہ اگیا تھا..

میں نے سب لوگوں کو تمام ٹارچیں جلانے کی ہدایت کی اور ہم سب روشنی میں بغور نئے سرے سے دیوار کا جائزہ لینے لگے..

ایک گھنٹے کی تلاش بسیار کے بعد دیوار پر ایسے پانچ پتھر ملے جنکا حجم ادھے انچ یا اس سے بھی کم تھا..

مکمل تسلی کر کے نئے سرے سے پروفیسر نے نشان لگانے شروع کردئے..

یہ تھکا دینے والا اور بوریت پیدا کرنے والا کام تھا..

تمام لوگ سائیڈ کی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے صرف پروفیسر اور گلوریا پتھروں پر نمبر لگا رہے تھے اور میں ان کے ساتھ کھڑا تھا..

اخرکار اس اکتا دینے والے کام سے جان چھوٹی اور گلوریا اور پروفیسر نے متفقہ فیصلے سے دو پتھروں پر نشان لگا دیا جن پر ضرب لگانی تھی..

اسی وقت مجھے اپنے دماغ میں نانا جان کی اواز سنائی دی..

علی بیٹا پروفیسر اور گلوریا نے اگرچہ درست نشان لگائے ہیں مگر ضرب لگاتے وقت تم غار سے باہر اجائو میں نہیں چاہتا تمھیں کوئی نقصان پہنچے..

ناناجان میں اس قبیلے کا سردار ہوں یہ سب میرے لوگ ہیں اور پروفیسر اور گلوریا بھی ہمارے ساتھ ہیں..

میں کیسے بزدلی دکھائوں اپ فکر مت کریں اور پریشان مت ہوں ہم ضرور کامیاب ہونگے..

میں جانتا تھا تم نہیں مانو گے دیوتا تمھاری حفاظت کریں..

اسکے بعد نانا جان خاموش ہوگئے..

نشان لگ چکے تھے پروفیسر منتظر نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا..

میں نے قبیلے کے دو لوگوں کو بلوایا اور دو ہتھوڑے انھیں تھما دئے..

پھر میں نے سروپ بابا کو سمجھایا کہ ایک دو تین گننا ہے اور تین کے ساتھ ہی دونوں نے اپنے اپنے پتھروں پر ایک ہی وقت میں ضرب لگانی ہے غلطی کی صورت میں ہم سب اس غار میں پتھروں کے نیچے دفن ہوجائیں گے..

سروپ بابا نے قبیلے کے دونوں لوگوں کو میری بات سمجھا دی..

علی کیا بہتر نہیں ہوگا ہم لوگ باہر چلیں پروفیسر مجھ سے مخاطب ہوا..

نہیں پروفیسر میں اپنے لوگوں کو اگے بڑھا کر خود پیچھے نہیں ہٹ سکتا..

تم نے ذمہ داری اور ایمانداری سے اپنا کام انجام دیا ہے اور اسی کی بنیاد پر نتیجہ نکلے گا اور وہ ہم سب کو اکٹھا بھگتنا ہے اچھا ہو یا برا..

پروفیسر مجبورا خاموش ہوگیا اور ہم سب ہٹ کر سائیڈ والی دیوار کے پاس اگئے..

سروپ بابا اور قبیلے کے دونوں لوگ اپنا اپنا ہتھوڑا لئے تیار تھے..

میری طرح سب ہی کے دل تیز دھڑک رہے تھے..

میں نے سروپ بابا کو اشارہ کیا..

سروپ بابا نے گنتی شروع کی ایک..دو..تین..

اسکے ساتھ ہی دونوں نے ایک ساتھ پتھروں پر ہتھوڑوں سے زوردار ضرب لگائی..

میں منتظر رہا مگر کچھ نہیں ہوا..

سروپ بابا مزید طاقت سے ضرب لگانے کا کہیں..

سروپ بابا نے دونوں کو میری بات سمجھائی اور ہم سب دوبارہ ضرب کے لئے تیار ہوگئے..

غار میں سروپ بابا کی اواز گونجی ایک..دو...تین..

اسکے ساتھ ہی دونوں نے اپنی پوری جان سے پتھروں پر ضرب لگائی..

ضرب لگتے ہیں گڑگڑاہٹ کی تیز اواز گونجی میرا دل اچھل کر حلق میں اگیا غار کی چھت سے پتھر گرنا شروع ہوگئے تھے سب لوگ باہر کی طرف بھاگنے لگے مگر دروازہ جہاں سے ہم اندر داخل ہوئے بہت دور تھا..

شاید ہمارا اخری وقت ان پہنچا تھا..

میں نے پلواشہ کا تصور کیا اور دل کی اور روح کی گہرائی سے اس اخری لمحے میں اس کے سامنے ہونے کی تمنا کی..

اس ایک لمحے میں میں نے اپنے سامنے برف کی چادر دیکھی اور قبیلے کی نامانوس زبان میں پلواشہ کی اواز سنائی دی..

مجھے سمجھ نہیں ارہی تھی یہ کیا ہے..

اچانک میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا..

میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے پلواشہ کے دماغ میں پہنچ گیا تھا..

وہ غار سے باہر اسی پتھر پر بیٹھی شایددعائیں یا مناجات پڑھ رہی تھی..

اس کی انکھیں کھلی تھیں اور اس کے سامنے تاحد نظر برف تھی وہی برف اور اس کی اواز میں نے محسوس کی تھی..

یہ شاید ایک دو لمحوں کی بات تھی اس کے بعد میرا اس سے ذہنی رابطہ منقطع ہوگیا تھا..

میں نے اس لمحے روح کی گہرائی سے اس کی تمنا کی تھی شاید جذبات کی شدت یا کسی اور وجہ سے میں اس سے دماغی رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا..

میرا دل خوشی سے لبریز ہوگیا میں اپنی منزل کے قریب پہنچ رہا تھا..

ہم سب بھاگتے بھاگتے رک چکے تھے غار کی چھت سے برسنے والے پتھر تھم چکے تھے..

اس کا مطلب تھا ہم نے درست پتھروں پر ضرب لگائی تھی..

میں نے پلٹ کر دیکھا پتھروں کی دیوار کے درمیان میں شگاف ہوگیا تھا اور اگے جانے کا راستہ بن گیا تھا..

سب لوگوں کی انکھوں میں خوشی کے اثار نظر ارہے تھے مگر سب جھینپ رہے تھے..

ہم بناء سوچے سمجھے یہ سوچ کر بھاگ پڑےتھے کہ غلط پتھروں پر ضرب لگی ہے اور غار منہدم ہورہا ہے..

ہم سب واپس چلتے ہوئے اس شگاف تک پہنچے اس سے اگے اندھیرا نظر ارہا تھا..

میں نے تھیلے میں سے سرچ لائٹ نکال کر شگاف کے دوسری طرف جھانکا تو کانپ گیا..

یہ ایک سرنگ نما چھ سات فٹ چوڑا تقریبا پچیس تیس فٹ لمبا راستہ تھا جو شاید دلدلی تھا اور اس دلدلی زمین میں بلبلے سے اٹھ رہے تھے اس سرنگ نما راستے کی چھت پندرہ بیس فٹ بلند تھی..

اندر گندھک اور کسی نامانوس شے کی ناقابل برداشت بدبو پھیلی ہوئی تھی..

میں نے واپس کھڑے ہوکر پروفیسر کی طرف دیکھا..

یہ تیزابی دلدل ہے جو سرنگ کے اخری کنارے تک ہے اس سے اگے پھر چٹانی دیوار ہے..

تو اسے پار کیسے کریں گے میں نے سوال کیا..

یہ بہت مشکل سوال ہے پروفیسر نے جواب دیا..

دیوار کے شگاف کے بعد بمشکل ادھا فٹ کا فاصلہ ہے اس کے بعد یہ دلدل شروع ہوجاتی ہے..

اس دلدل میں اگر کوئی گرجائے تو شاید چند لمحوں میں اس کا گوشت تو کیا ہڈیاں بھی گل کر دلدل کا حصہ بن جائیں گی..

پھر ہم اسے کیسے پار کریں گے پروفیسر میں نے پریشان ہوکر پوچھا..

اس ادھے فٹ کے راستے پر قدم جماتے ہوئے سیدھے ہاتھ کی دیوار تک پہنچنا ہوگا اور وہاں پہلے دیوار میں نیچے سے اوپر میخیں ٹھوکنی ہونگی تاکہ ان پر چڑھ کر کچھ بلندی تک پہنچا جا سکے..

اسکے بعد ہر چند فٹ بعد دیوار میں ایک میخ ٹھونکتے ہوئے اگےبڑھنا پڑے گا ایک میخ اوپر اور ایک میخ دیوار پر نیچے تاکہ اس پر پائوں رکھا جا سکے..

اوپر والی میخوں سے شروع سے اخر تک رسی بندھے گی تاکہ جب ہم نچلی میخ پر پائوں رکھیں تو سہارے کے لئے اوپر رسی کو تھام سکیں..

کسی ایک شخص کو اپنی جان پر کھیل کر یہ کام کرنا پڑے گا تو ہی ہم اگے بڑھ سکیں گے..

نہیں پروفیسر یہ عملی طور پر ناممکن کی حد تک مشکل ہے..

ایک تو اس سرنگ میں مستقل گیس پیدا ہورہی ہے جو چند لمحوں میں انسان کو ہلاک کرسکتی ہے..

ہم ماسک لگا کر کام کریں تو بھی پہلے ادھا فٹ کے راستے پر پانچ چھ فٹ تک سامان اٹھا کر دائیں جانب بڑھنا پھر میخیں ٹھوکنا اوپر رسی باندھتے ہوئے اگے بڑھنا..

اس دوران زہریلی گیس اپنی جگہ دلدل میں گرنے کا خطرہ الگ ہوگا..

نہیں پروفیسر ہم میں سے کوئی ایسا ایکسپرٹ نہیں جو یہ کام انجام دے سکے..

تمھارے پاس اس سے بہتر حل ہے تو تم بتا دو پروفیسر نے جواب دیا..

میں سوچ میں پڑ گیا کچھ ایسا قابل عمل حل ہو جس سے ہم اس دلدل کو پار کر سکیں..

کچھ دیر رک جائیں اس کا حل سوچتے ہیں..

میں ناناجان سے مشورہ کرنا چاہ رہا تھا..

مجھے یقین تھا ناناجان حالات سے بے خبر نہیں ہونگے جلد ہی ان سے رابطہ ہوجائے گا..

تمام لوگ دیوار کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے..

مگر اگے کے راستے کے حوالے سے ہر کوئی تشویش کا شکار تھا..

کچھ ہی دیر میں ناناجان کی اواز میرے دماغ میں گونجی..

علی بیٹا بظاہر اس کا کوئی اور حل ممکن نہیں ہے..

یہ لوگ پہلے ہی نقشہ پڑھ چکے تھے اور اسی کے حساب سے تیاریاں کر کے سامان لے کر ائے تھے..

فرق صرف اتنا ہے ان کی ٹیم میں تجربہ کار لوگ تھے جو مارے جاچکے ہیں ہمارے پاس ایسا کوئی شخص نہیں جو اس طرح کے مشکل کاموں کو انجام دے سکے..

دیوتائوں کا تم پر سایہ ہو قبیلے کے لوگوں سے ہی یہ کام لینا پڑے گا..

ان سب لوگوں کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ ہوسکتا ہے اس مہم سے واپسی ممکن ناں ہو..

مگر کامیابی کی صورت میں ان کی توقع سے زیادہ انعام ملے گا..

یہ لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر تمھارے ساتھ ائے ہیں میں بے سروپ کو خاص طور پر ان لوگوں کو لانے کا کہا تھا جن کی کوئی عورت یا بچہ ناں ہو..

سوچو مت اگے بڑھو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے..

ناناجان کی بات سن کر کہنے کو باقی کچھ تھا ہی نہیں ناں ہی ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی اور متبادل تھا..

چاروناچار میں نے سروپ بابا کو سارا کچھ سمجھایا انھوں نے قبیلے کے چھ لوگوں سے مخاطب ہوکر بات کی..

شاید وہ رضامندی سے کسی کو چننا چاہ رہے تھے..

ان کی بات مکمل ہوتے ہی دو لوگوں نے ہاتھ اٹھا دیا..

سروپ بابا انھیں سمجھا دیں کسی قسم کا خطرہ مول لینے اور جلدبازی کی ضرورت نہیں ہے..

بے شک پورا دن لگ جائے اس کام میں مگر ہمارے ہر شخص کی زندگی ہمیں عزیز ہے..

کچھ دیر کی بات چیت میں طے پایا کہ دو لوگ باری باری یہ کام کریں گے..

پہلا شخص ادھے حصے تک میخیں دیوار میں گاڑ کر واپس اجائے گا اسکے بعد دوسرا شخص اس سے اگے کام مکمل کرے گا..

پروفیسر نے تھیلے سے ایک ماسک نکال لیا..

یہ جدید ترین ماسک تھا جو چہرے اور انکھوں کو ڈھانپتا تھا..

اس ماسک میں سے ربڑ کی نلکی نکل کر ایک ڈیڑھ فٹ کے اکسیجن سلنڈر تک جارہی تھی..

پروفیسر نے ایک شخص کے ماسک چہرے پر چڑھا کر اسکا اکسیجن سلینڈر بندشوں کے ساتھ پشت پر باندھ دیا..

اسکے بعد اس کی کمر سے میخوں والا تھیلا باندھ دیا گیا جس میں دس میخیں تھیں جو اسے ہر ڈھائی تین فٹ کے فاصلے پر اوپر اور نیچے دیوار میں ٹھوکنی تھیں..

یہ خاص قسم کی میخیں تھیں جو ڈیڑھ فٹ لمبی تھیں اور ان کے سرے کافی چوڑے اور چپٹے تھے تاکہ ٹھوکنے اور رسی باندھنے میں اسانی ہو..

ایک کندھے پر اس نے رسی کا بنڈل لٹکا لیا یہ رسی کافی موٹی اور وزنی تھی..

ماسک کی موجودگی میں سر پر ٹارچ والی کیپ غیر ضروری تھی اس سے بہتر تھا ہم یہاں سے سرچ لائٹ جلا کر روشنی پہنچاتے رہیں..

ہمارے پاس موجود سرچ لائٹس بھی کافی طاقتور تھیں اور ارام سے سرنگ کے پار تک دن کی روشنی جیسا اجالا پیدا کررہی تھیں..

اخرکار تمام تیاریاں مکمل ہوگئیں اور پروفیسر نے اکسیجن سلنڈر کا والو کھول دیا اور وہ شخص پتھروں کی دیوار میں موجود شگاف سے اندر داخل ہوگیا..

اس کے اندر داخل ہوتے ہی میں سرچ لائٹ لے کر شگاف کے پاس اگیا..

سرچ لائٹ ان کرتے ہی وہ سرنگ نما راستہ روشنی سے منور ہوگیا..

وہ شخص دیوار دلدل کی طرف منہ کئے پشت پتھروں والی دیوار سے لگائے دھیرے دھیرے اگے کھسکتا رہا اور اخر کار بائیں طرف کی دیوار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا..

اس کے بعد اس نے زمین پر بیٹھ کر زمین سے دو فٹ اونچائی پر دیوار میں پہلی میخ ٹھوکنی شروع کی..

اسے میخ کو ادھا فٹ دیوار میں ٹھوکنا تھا..

کچھ دیر میں نچلی میخ ٹھونک کر وہ کھڑا ہوا اور سر کی اونچائی پر اس نے دوسری میخ ٹھونک دی..

میخ ٹھوکنے کے بعد اس نے اپنے کندھے پر موجود رسی کے دو تین بل کھولے اور دو تین گرہیں دے کر رسی کو اوپر والی میخ سے باندھ دیا..

اس کے بعد اس نے وہیں کھڑے کھڑے اوپر والی میخ کی سیدھ میں ڈھائی تین فٹ کے فاصلے سے دوسری میخ ٹھوکنا شروع کردی..

ابتداء میں یہ طے پایا تھا کہ ہم دائیں طرف کی دیوار میں میخیں ٹھونک کر راستہ پار کریں گے..

مگر اس صورت میں اسے پہلی کے بعد اگلی میخوں کو ٹھونکنے کے لئے الٹا ہاتھ استعمال کرنا پڑتا..

اس لئے الٹے ہاتھ پر موجود دیوار سے اگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا..

اوپر والی میخ ٹھک چکی تھی اب اس نے کچھ دیر میں نیچےوالی میخ بھی ٹھونک دی..

پہلا مرحلہ تو بخیروخوبی اپنے انجام تک پہنچ گیا تھا اصل مرحلہ اور اس کی ہمت و جرات کا امتحان اب شروع ہونا تھا..

اب اس کو پہلی میخوں پر پائوں رکھ کر دوسری میخوں تک جانا تھا اور اپنا سارا وزن دوسری میخ پر ڈال کر تیسری میخ ٹھونکنا تھی..

میرے ساتھ شگاف میں پروفیسر اور گلوریا بھی سرجوڑے اس سارے عمل کو دیکھ رہے تھے..

اخرکار اس نے پہلی میخ پر الٹا پائوں رکھا اور اوپر والی میخ تھام کر دوسرے نمبر کی میخ پر قدم رکھ دیا..

ہم سانس روکے اس کی کامیابی کے لئے دعاگو تھے..

یہ مرحلہ سب سے مشکل تھا اور اسی پر ہماری کامیابی کا دارومدار بھی تھا..

ایک ہاتھ سے میخ تھامے وہ اگلی میخ نہیں ٹھونک سکتا تھا..

اس مقصد کے لئے اسکے کندھوں کے نیچے سے گزار کر باندھے گئے خاص قسم کے پہاڑوں پر کلائمبنگ کرنے والے خاص قسم کے کلپ اور رسی تھی..

اس کلپ کو میخ میں پھنسا کر رسی کے سہارے جھولتے ہوئے اسے اگلی میخیں ٹھونکنی تھیں..

ہم سانس روکے اسے دیکھتے رہے یقینا یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر سرانجام دئے جانے والا کام تھا..

میں نے سوچ لیا تھا اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ان جانبازوں کو ان کی سوچ اور توقع سے زیادہ انعام سے نوازوں گا..

اس جوان نے ہوا میں جھولتے ہوئے تیسری میخ اوپر ٹھونکی اسکے بعد رسی ڈھیلی کر کے نیچے والی میخ ٹھونک دی..

اہستہ اہستہ اس نے دس کی دس میخیں دیوار میں ٹھونک لیں تو ہماری سانس میں سانس ائی..

اب اس نے کندھے پر جھولتی رسی نکال کر اخری میخ میں ٹانک دی اور ایک ایک میخ پر قدم جماتا کوا اوپر بندھی رسی کو تھامے واپس لوٹ ایا..

جیسے ہی اس نے شگاف سے باہر قدم رکھا میں نے اس جوان کو گلے لگا لیا..

اپنے ہاتھ سے اس کا ماسک اتارا اور پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی..

یقینا اس نے ایک ناقابل یقین کارنامہ سرانجام دیا تھا..

سب لوگوں کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے..

ادھے سے کچھ زیادہ راستہ مکمل ہوچکا تھا..

اب باقی دس مزید میخیں اگلے شخص کو ٹھونکنی تھیں..

مکمل تیاریوں کے بعد اگلا شخص غار کے دہانے سے اندر داخل ہوگیا..

میں دوبارہ سرچ لائٹ لے کر شگاف کے پاس اگیا..

وہ پچھلے شخص کا طریقہ کار دیکھ چکا تھا اس لئے اس کے لئے اس کام کو سمجھنا اور کرنا نسبتا اسان تھا..

دس میں سے چھ میخیں اس نے درستگی سے ٹھونک کر رسی باندھ دی..

جب وہ ساتویں نیچے والی میخ ٹھونک رہا تھا تو اچانک میخ میں لگا کلپ کھل گیا اور وہ دلدل میں جاگرا..

میرا دل اچھل کر حلق میں اگیا..

غار اس بدنصیب کی چیخوں سے گونجنے لگی..

ہم بے بسی سے اس کے جسم کا گوشت اور ہڈیاں دلدل میں گلتے دیکھتے رہے..

خونی دلدل نے لمحوں میں اس کے جسم کا گوشت گلا دیا تھا اب وہاں ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر ارہا تھا وہ بھی اگلے چند لمحوں میں دلدل کا حصہ بن گیا..

ہم سب ساکت ہوکر اس خونی منظر کو دیکھتے رہے..

میرا دل غم سے بوجھل ہوگیا..

ہمارا ایک ساتھی کم ہوچکا تھا..

اس نے ہمارے لئے اپنی جان گنوا دی تھی..

میں خاموشی سے اکر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا..

سب لوگ اس کی ناگہانی موت پر سوگوار تھے..

پروفیسر نے درست کہا تھا ایک غلط قدم سیدھا موت کے منہ میں لے جا سکتا ہے..

یقینا اس نے کلپ کو میخ کے ساتھ سہی سے لاک نہیں کیا تھا..

ورنہ ان کلپس کی ساخت اس طرح کی ہوتی ہے کہ ان سے ہاتھی بھی لٹک جائے تو وہ اس کا وزن سہار لیں لاک کھلنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا..

اخرکار وہی جوان اٹھا جس نے پہلے میخیں ٹھونکی تھیں..

اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کچھ کہا..

سروپ بابا اسکی بات کا ترجمہ کیا کہ یہ کہ رہا ہے باقی کام یہ مکمل کرے گا..

اس شخص کا نام "نالتر" تھا..

ہمارے پاس اور کوئی چوائس تھی بھی نہیں نالتر کامیابی سے پہلے میخیں ٹھونک کر اچکا تھا اور کسی نئے شخص کو ازمانے سے بہتر وہی تھا..

میخوں والا تھیلا ہتھوڑی و دیگر سامان اس شخص کے ساتھ ہی دلدل میں ضائع ہوگیا تھا..

پروفیسر نے مزید میخیں نکال کر نالتر کے تھیلے میں ڈالیں اور نیا اکسیجن ماسک اسکے چہرے پر چڑھا کر اسے اندر جانے کے لئے تیار کر دیا..

نالتر شگاف سے اندر داخل ہورہا تھا..

سرچ لائٹ پروفیسر نے تھام لی تھی اور اسے روشنی دکھا رہا تھا..

دکھی دل کے ساتھ میں اٹھا اور پروفیسر کے ساتھ اکر شگاف میں بیٹھ گیا..

نالتر رسی کو تھامے وہ قدم بہ قدم میخوں پر پائوں جمائے اگے بڑھتا جارہا تھا..

اخرکار وہ اسی جگہ پہنچ گیا جہاں پچھلا شخص دلدل میں گرا تھا..

اس نے خود کو میخ کے ساتھ کلپ کیا اور میخ کو ٹھونکنا شروع کردیا..

اہستہ اہستہ اس نے تمام میخیں ٹھونک کر اخری میخ تک رسی باندھ دی..

جہاں دلدل ختم ہورہی تھی وہاں دیوار تھی..

اس دیوار کے درمیان میں ایک لوہے کا گول کڑا تھا جسے کھینچنے سے دیوار اپنی جگہ سے سرک جاتی..

اس کڑے تک پہنچنا پھر ایک صبر ازما مرحلہ تھا..

اخری میخ پر کھڑے ہوکر نالتر نے اب دلدل کے پار والی دیوار پر میخیں گاڑ کر کڑے تک پہمنچنے کا راستہ بنایا..

یہ کام نسبتا اسان تھا اخرکار اسکا ہاتھ کڑے تک پہنچ گیا اور اس نے کڑے کو پوری طاقت سے اپنی طرف کھینچا..

گڑگڑاہٹ کی اواز سے دیوار دو حصوں میں تقسیم ہوگئی..

درمیان میں ایک فٹ چوڑا ستون نما حصہ زمین سے چھت تک تھا اس کے دائیں اور بائیں سے دیوار اپنی جگہ سے سرک کر دائیں اور بائیں طرف کی دیواروں میں گم ہوچکی تھی..

پروفیسر نے سرچ لائٹ اس طرف ڈالی تو ہمارے رونگھٹے کھڑے ہوگئے..

اگے بھی سرنگ نما حصہ تھا مگر فرش پر بلامبالغہ ہزاروں سانپ موجود تھے جو پھن لہرا رہے تھے..

ان کی پھنکاروں کی اوازیں ہمیں دلدل کے اس طرف تک محسوس ہورہی تھیں..

نالتر گڑگڑاہٹ کی اواز کے ساتھ ہی بائیں طرف کی دیوار والی میخوں پر قدم جما چکا تھا..

وہ بھی انہی سانپوں کو دیکھ رہا تھا..

جو سانپ کنارے تک اگئے تھے وہ دلدل میں گر کر غرق ہوگئے مگر ہزاروں سانپ تھے ہم کسی صورت انھیں ہٹائے بناء وہ راستہ عبور نہیں کر سکتے تھے..

میں نے نالتر کو واپس انے کا اشارہ کردیا کچھ ہی دیر میں وہ واپس اکر شگاف سے باہر اگیا..

ان سانپوں کا کیا علاج ہے پروفیسر..

سانپوں والے حصے کی بھی لمبائی, چوڑائی اور اونچائی دلدلی حصے کے برابر ہے پروفیسر نے جواب دیا..

ہمیں مشعلوں کو جلا کر پوری قوت سے سانپوں والی سرنگ کے اخر تک پھینکنا ہوگا..

سانپ اگ سے گھبرا کر وہاں سے اگے دلدل کی طرف ائیں گے اور مرتے جائیں گے..

مگر پروفیسر یہ تو ہزاروں سانپ ہیں انھیں پچھلی طرف سے اگ کا ہانکا کر کے اگے دھکیلنے میں پورا دن لگ جائے گا..

نہیں پورا دن تو نہیں لگے گا مگر کافی وقت لگ جائے گا اس کے علاوہ ان سانپوں کا کوئی علاج نہیں ہے..

ٹھیک ہے ہم یہ کرتے ہیں اس کام کو میں سرانجام دوں گا..

پروفیسر, گلوریا اور سروپ بابا حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگے..

سردار..نالتر تجربہ کار ہوچکا ہے یہ کام اسے کرنے دیں اپ اپنی جان خطرے میں مت ڈالیں سروپ بابا پریشانی سے بولے..

نالتر ہو یا کوئی بھی شخص ہر ایک کی جان اتنی ہی قیمتی ہے سروپ بابا جتنی میری..

مجھے پسند نہیں میرے لوگ خطروں میں رہیں اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں..

پروفیسر اپ ماسک اور مشعلیں نکالیں میں نے حتمی لہجے میں کہا تو سب خاموش ہوگئے مگر ان کے چہروں پر تردد کے اثار تھے..

ماسک پہن کر کلپ والی رسی کندھوں میں ایڈجسٹ کر کے مشعلوں والا تھیلا لے کر میں شگاف کی طرف بڑھ گیا..

سروپ بابا اور قبیلے والوں نے خاص طور پر نالتر نے مجھے روکنے کی بہت کوشش کی مگر میں طے کرچکا تھا ہر معاملے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہوں گا..

شگاف میں قدم رکھ کر میں احتیاط سے بائیں ہاتھ کی دیوار کی طرف بڑھتا ہوا رسی تک پہنچ گیا اور اسے تھام کر میخوں پر پائوں رکھتے ہوئے اگے بڑھتا چلا گیا..

مرنے والے دوسرے شخص اور نالتر کی بدولت یہ سب بہت اسان ہوگیا تھا..

صرف ایک میخ سے دوسری میخ پر پائوں رکھتے ہوئے احتیاط کرنی پڑتی تھی..

اوپر رسی تھامے ہونے سے اگے بڑھنا کافی اسان ہورہا تھا..

اخرکار میں اخری میخ پر پہنچ گیا اصل مشکل مرحلہ یہ تھا..

میں نے کندھوں کے نیچے سے گزاری ہوئی رسی جس کے سرے پر کلپ لگا ہوا تھا اسے میخ کے ساتھ احتیاط سے لاک کیا اور دیوار سےبندھی رسی کو تھامے ہوئے لاک کو کھینچ کر اس کی مظبوطی کو پرکھا..

اب مجھے دیوار والی رسی چھوڑ کر صرف کندھوں والی رسی کے سہارے ہوا میں جھولتے ہوئے مشعل جلانی تھیں اور پوری قوت سے سانپوں والی سرنگ کے اخری کونے تک پھینکنی تھیں..

میں نے اہستہ اہستہ دیوار والی رسی کو چھوڑ دیا اور ہوا میں جھولنے لگا..

اس کے بعد تھیلے سے ایک مشعل نکال کر جلائی اور جھولتے ہوئے پوری طاقت سے سرنگ کی اخری سرے کی طرف پھینک دی..

مشعل بالکل اخر تک تو نہیں گئی مگر دیوار کے کافی قریب تک پہنچی جہاں وہ مشعل گری تھی وہاں سے سانپ سمٹنےلگے اور پروفیسر کا اندازہ درست نکلا وہ اگے دلدل کی طرف انے لگے..

پیچھے ہٹنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا بے شمار سانپ دلدل میں گرتے رہے اور فنا ہوتے رہے..

میں نے ایک کے بعد دوسری مشعل سرنگ میں پھینکنی شروع کردیں جو مختلف فاصلوں پر جاکر گرتی رہیں..

سانپ غضب ناک ہوکر پھنکارتے ہوئے اگے کی طرف بڑھتے جہاں موت ان کے دلدل کی صورت ان کا استقبال کر رہی تھی..

تھیلے کی تمام مشعلیں ختم کر کے میں واپس اٹھا اور دیوار سے بندھی رسی کو تھام کر واپسی کا سفد شرور کردیا..

کچھ ہی دیر میں اخری میخ سے ہوتا ہوامیں شگاف سے باہر اچکا تھا..

سب لوگوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ستائش کے تاثرات تھے..

بہت دیر تک سانپوں کی موت کا رقص جاری رہا اور سانپ دلدل میں گر کر فنا ہوتے رہے..

اخرکار مشعلیں بجھ گئیں اسکے بعدنالتر مشعلوں کا تھیلا لے کر روانہ ہوا اور اخری میخ تک پہنچ کر اس نے اسی عمل کو دوہرایا..

اسی دوران ناناجان سے دماغی رابطہ ہوا ہمارے پاس مشعلیں کم تھیں جو ناناجان نے قبیلے سے مزید بھجوا دیں..

سرنگ میں جلتی ہوئی مشعلیں پھینکنے کا سلسلہ وقفے وقفے سے چلتا رہا قبیلے کے مزید دو لوگوں نے بھی اس میں حصہ لیا..

ہمارے کئے گھنٹے ضائع ہوئے مگر اخرکار سرنگ سانپوں سے پاک ہوگئی اب سرنگ میں اکا دکا سانپ ہی نظر ارہے تھے..

اب ہم سب کو اس سرنگ تک جانا تھا..

ہمارے پاس گیس ماسک صرف چھ تھے جن میں سے دو کے سلنڈر مکمل استعمال ہوچکے تھے اور ایک سرنگ میں ضائع ہوچکا تھا..

استعمال شدہ سلنڈر اور ماسک ہم نے وہیں پھینک دئے اور شگاف کی طرف بڑھ گئے..

سب سے پہلے نالتر میخوں پر سے چلتا ہوا دوسری طرف اتر گیا اس بار باقی سامان کے ساتھ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی بھی تھی تاکہ باقی رہ جانے والے سانپوں سے بچا جاسکے..

نلتر کے بعد میں نے میخوں پر قدم رکھا اور چلتا ہوا دوسری طرف اتر گیا..

ہم نے سب لوگوں کو سمجھا دیا تھا کہ سانس روک کر گزرنا ہے دس میخوں پر سے تیس فٹ کا فاصلہ طے کرنے میں بمشکل ایک منٹ لگ رہا تھا..

گیس ماسک پروفیسر, سروپ بابا اور گلوریا کے لئے تھے..

ایک ایک کر کے تمام لوگ دلدل پار کر کے اس سرنگ میں اگئے..

تب تک نالتر اور دیگر لوگوں نے باقی رہ جانے والے سانپوں کو ختم کردیا تھا..

ہم چلتے ہوئے سرنگ کے اخری کونے پر موجود دیوار کے پاس پہنچ گئے..

اس دیوار پر بھی لوہے کا ایک کڑا تھا جس کھینچنے سے دیوار سرک کر سائیڈ میں غائب ہوگئی..

میں نے پروفیسر کی طرف دیکھا..

اگے موجود راستے میں زمین پر لائن سے پتھر چنے ہوئے تھے..

علی اس کے بارے میں نقشے میں کوئی ہدایت موجود نہیں ہے..

ہمیں صحیح پتھروں پر پائوں رکھتے ہوئے اگے بڑھنا ہے..

غلط جگہ پائوں رکھنے سے چاروں طرف سے تیروں کی برسات ہوجائے گی..

کیا مطلب ہے نقشے میں ہدایت نہیں ہے میں نے الجھ کر پروفیسر سے سوال کیا پھر ہم کیسے پار کریں گے اسے..

پروفیسر نے قبیلے کے ایک شخص کو کمر پر بندھا تھیلا اگے لانے کو کہا..

اس تھیلے میں دو لوہے کے گولے تھے جو کافی وزنی تھے..

ان پتھروں میں ایسا مکینزم ہے کہ غلط جگہ قدم پڑنے سے وزن پڑنے پر تیر برسنا شروع ہوتے ہیں..

ان تیروں کی ایک حد ہوگی سو دو سو پانچ سو ہزار دو ہزار دس ہزار اخرکار وہ ختم ہوجائیں گے..

تم غور کرو یہاں جہاں ہم کھڑے ہیں یہاں سے اخری کنارے تک ذرا سی ڈھلان ہے اگر ہم یہ گولے لڑھکاتے ہوئے اخری سرے کی طرف پھینکیں تو یہ ڈھلان کی وجہ سے پلٹ کر واپس اجائیں گے..

میں نے پروفیسر کے ہاتھ سے گولا لیا اور زمین پر اسے لڑھکا دیا یہ بھی تقریبا بیس فٹ لمبا راستہ تھا..

گولہ اگے بڑھتا رہا شاید کسی غلط پتھر پر وزن پڑ گیا تھا اچانک دائیں بائیں سے کی دیواروں سے تیروں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی..

تیر چند لمحوں تک راستے کے ہر حصے پر برستے رہے اسکے بعد بند ہوگئے.. 

گولا لڑھکتا ہوا واپس ایا تو واپسی میں کوئی تیر نہیں چلا شاید اس کا وزن کسی غلط جگہ نہیں پڑا تھا..

اس کے بعد تو جیسے قبیلے والوں کو کھیل مل گیا ہو..

سب لوگ باری باری گولے لڑھکاتے رہے کبھی تیر برستے کبھی خالی گولے لڑھکتے ہوئے واپس اجاتے..

ایک ڈیڑھ گھنٹے تک یہ سلسلہ چلتا رہا اخر تیر برسنا بند ہوگئے..

ہم نے احتیاطا مزید پندرہ بیس منٹ چوڑائی میں ہر طرف سے گولے لڑھکائے پروفیسر کا اندازہ درست تھا تیر ختم ہوچکے تھے..

پورا راستہ تیروں سے اٹا ہوا تھا..

سب لوگ ابھی بھی مخمصے کا شکار تھے..

میں نے نالتر کی طرف دیکھ کر سر ہلایا ہم دونوں نے قدم اگے بڑھا دئے اور تیروں والی سرنگ میں داخل ہوگئے..

کچھ ہی دیر میں ہم دونوں سرنگ پار کر کے اخری سرے تک پہنچ چکے تھے..

اس دیوار میں بھی درمیان میں لوہے کا کڑا نصب تھا..

نالتر نے کڑے کو تھام کر پوری قوت سے کھینچا..

گڑگڑاہٹ کی اواز کے ساتھ دیوار دو حصوں میں تقسیم ہوگئی..

درمیان میں جس جگہ کڑا نصب تھا وہ ایک فٹ موٹا ستون نما حصہ زمین سے چھت تک تھا..

اس کے دائیں اور بائیں طرف سے دیواریں سرک کر سائیڈ کی دیواروں میں غائب ہوچکی تھیں..

قبیلے کے تمام لوگ ہمارے قریب اچکے تھے اور کسی نئی مشکل کے منتظر تھے..

دیواریں ہٹتے ہی سامنے ایک عظیم الشان غار نظر ایا..

میں نے سرچ لائٹ ڈالی تو دیکھا ہم جس جگہ کھڑے تھے اسکے اگے غار کم سے کم ڈیڑہ سو فٹ فٹ گہری تھی..

سامنے کی طرف اس کی دوری کم سے کم چار پانچ سو فٹ تھی اور جس جگہ ہم کھڑے تھے وہاں سے اگے کی چھت بھی ہم سے مزید چالیس پچاس فٹ بلند تھی..

یعنی ہم ایک غار کے عین درمیان میں تھے..

ہمیں اس کی تہ تک اترنا تھا میں نے نیچے سرچ لائٹ ڈالی مگر وہ اتنی طاقتور نہیں تھی کہ روشنی تہ تک جاتی..

میں نے پروفیسر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ہمیں اب یہاں اس عمودی ڈھلان سے نیچے اترنا ہے..

ہاں بالکل اور نقشے کے مطابق اس غار کی تہ میں خزانہ موجود ہے..

مگر نیچے کس قسم کی مشکلات پیش ائیں گی اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے ناں ہی نقشے میں وضاحت دی گئی ہے..

سب سے پہلے تو ہمیں ڈیڑھ سو فٹ نیچے اس چٹانی ڈھلان سے اتر کر تہ تک جانا ہے..

وہاں اگر کوئی مشکل یا رکاوٹ ہو تو اس سے نمٹ کر خزانہ حاصل کرنا ہے..

اسکے بعد اس خزانے کو اتنا اوپر واپس لانا اور جس راستے سے ہم گزر کر ائے ہیں اس سے واپس گزر کر خزانے کو باہر پہنچانا..

یہ تو بعد کی باتیں ہیں میں نے پروفیسر کی بات کا جواب دیا..

اصل بات یہ ہے ہمیں اس غار کی تہ تک پہنچ کر خزانہ حاصل کرنا ہے اس سے اگے کیا ہوگا یہ ہم اتر کر ہی جان سکتے ہیں..

اپ نیچے اترنے کی تیاریاں کریں..

پروفیسر نے ساری رسیاں اکٹھی کرنے کا کہا..

ہمارے پاس موجود کچھ رسیاں تو دلدل والی سرنگ میں استعمال ہوچکی تھیں..

ایک رسی کا بنڈل پچاس فٹ کا تھا اس طرح اب بھی ہمارے پاس تقریبا ساڑھے تین سو فٹ رسی موجود تھی..

پروفیسر نے ہر بنڈل کو کھول کر ہر دس بارہ فٹ کے فاصلے سے گرہ لگانے کا حکم دیا تاکہ رسی کے سہارے اترتے ہوئے پھسلنے سے بچ سکیں اور گرہ سے سپورٹ مل سکے..

یہ کام مکمل ہونے کے بعد رسیوں کو اپس میں باندھا گیا یہ کام میں نے اپنی اور پروفیسر کی نگرانی میں کروایا..

پروفیسر کے پاس پہاڑوں پر کلائمبنگ کرنے کے کلپس تھے..

پہلے رسیوں کے سروں کو اپس میں مظبوطی سے باندھا گیا..

اس کے بعد ان سروں کو کلپس سے لاک کردیا گیا..

یہ دوہرا انتظام اس لئے تھا کہ وزن کی وجہ سے رسیاں کھل ناں جائیں..

اس کے بعد پروفیسر نے رسیوں کو ڈبل کردیا اور لوپ بنا کر اس کڑے والے ستون کے گرد باندھ کر باقی رسی کھائی میں گرانی شروع کردی..

رسیاں اب کھائی میں لٹک رہی تھیں اور ہم نے اس سے لٹک کر نیچے جانا تھا..

ڈبل رسی کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ وزن سہارنا اور کسی ایک کے کھل جانے یا ٹوٹ جانے کی صورت میں بھی دوسری رسی کی سپورٹ موجود رہتی..

سب سے پہلے نالتر نے نیچے جانے کا ارادہ ظاہر کیا..

میرا بھی یہی خیال تھا اسے پہلے بھیجا جائے وہ جی دار ادمی تھا اور اپنی دلیری اور جی داری کی وجہ سے میں نے اسے مستقل اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا..

اس نے سر پر وہی کیپ پہنی ہوئی تھی جس میں لائٹ لگی تھی..

میں نے نالتر کا کندھا تھپتھپایا اور اسے نیچے اترنے کا اشارہ کیا..

رسی اتنی مظبوط تھی کہ ہم سب ایک ہی وقت میں اوپر نیچے اس سے اتر سکتے تھے مگر فیصلہ ہوا کہ ایک وقت میں دو دو لوگ کر کے نیچے اتریں گے..

میں نے اوپر کے معاملات سروپ بابا اور پروفیسر کے ذمہ ڈال کر ان سب کی مخالفت کے باوجود نیچے جانے کا ارادہ کر لیا..

نالتر ایک کلہاڑی اپنی پشت پر باندھ چکا تھا اور اب اتر رہا تھا..

میں نے بھی ایک کلہاڑی اپنی پشت پر بندھوائی لائٹ والی کیپ پہنی ایک سرچ لائٹ تھیلے میں ڈال کر کمر سے لٹکائی اور جب نالتر پندرہ بیس فٹ نیچے اتر گیا تو میں نے اس کے پیچھے رسی کو تھاما اور نیچے اترنے لگا..

ہم دونوں رسیوں کے سہارے ڈیڑھ سو فٹ اونچی چٹان پر ہوا میں جھول رہے تھے..

ہمارا سارا وزن ہاتھوں پر تھا پائوں کو تب سپورٹ ملتی جب رسی پر موجود گرہ اتی تب رک کر میں سانس بحال کر کے اگے بڑھتا..

مجھے یقین تھا نالتر بھی یہی کر رہا ہوگا..

مجھ سے پندرہ بیس فٹ نیچے نالتر تھا..

اوپر پروفیسر اور سروپ بابا نے دو سرچ لائٹس تھامی ہوئی تھیں اور ہمیں روشنی میں نیچے کا منظر دکھا رہے تھے..

اہستہ اہستہ ہم دونوں رسی سے نیچے پھسلتے رہے..

میرے ہاتھ بری طرح چھل چکے تھے مگر ہمارے پاس اور اور کوئی حل نہیں تھا..

جیسے جیسے ہم نیچے اتر رہے تھے حبس اور گرمی میں اضافہ ہورہا تھا اور رسی سے اترنے کی مشقت الگ .

کچھ دیر میں پسینہ دھاروں کی صورت جسم سے بہنا شروع ہوگیا..

میں نے نیچے نظر دوڑائی تو نالتر سارا فاصلہ طے کر کے رسی چھوڑ چکا تھا میں اس سے پندرہ بیس فٹ ہی دور تھا..

اچانک غار خوفناک دھاڑ سے گونج اٹھا..

میں نے نظر اٹھائی تو غار کے ایک طرف سے ایک قوی ہیکل اور خوفناک شیر برامد ہوا تھا جو نالتر پر چھلانگ لگانے کو بیتاب تھا..

White Mountains


نالتر کلہاڑی پشت سے اتار کر ہاتھ میں تھام چکا تھا..

میں نے جلدی جلدی نیچے پھسلنا شروع کردیا میری ہتھیلیاں بری طرح پسینے سے بھیگی ہوئی تھیں شاید زمین سے دس فٹ کا فاصلہ رہ گیا ہوگا میرے عین نیچے نالتر کلہاڑی تھامے شیر کو دیکھ رہا تھا..

شیر نے ایک خوفناک دھاڑ ماری اور نالتر پر چھلانک لگادی..

Continue.......

Tags

Post a Comment

0Comments

Write here your review about post.

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !