سلطنت
قسط نمبر 35 تا 42
تحریر : ارشد احمد
Novel Sultanat
میں اس وقت زمین سے اٹھ دس فٹ بلند تھا میری ہتھیلیاں اور جسم گرمی اور حبس کی وجہ سے پسینے سے شرابور ہوچکا تھا..
شیر نے نالتر پر چھلانگ لگائی تو نالتر نے ایکطرف ہٹتے ہوئے کلہاڑی کا وار شیر کے سر پر کرنے کی کوشش کی نالتر تو شیر کے حملے سے بچ گیا مگر اس کا شیر پر حملہ بھی کامیاب نہیں ہوا اور کلہاڑی کا پھل اچٹتا ہوا شیر کی گردن پر لگا جہاں سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا..
میں اس وقت تک رسی چھوڑ کر زمین پر چھلانگ لگا چکا تھا اور پشت سے بندھی کلہاڑی ہاتھوں میں تھام چکا تھا..
نالتر میرے بائیں طرف دو تین فٹ دور کھڑا تھا..
شیر زخمی ہونے کے بعد بے حد غضبناک ہوچکا تھا..
پہلے حملے کی ناکامی کے بعد اس نے پلٹ کر واپس نالتر کیطرف چھلانگ لگائی.
نالتر کے الٹی طرف دیوار تھی وہ ناں اس طرف ہٹ سکتا تھا ناں ہی پیچھے ہٹ سکتا تھا دونوں صورتوں میں وہ شیر کی زد میں اتا..
شیر اپنا بھیانک منہ کھولے ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ نالتر پر حملہ اور ہوا تھا..
نالتر نے زمین پر بیٹھتے ہوئے اپنے سرکے اوپر کلہاڑی چلائی اور شیر کو ایک اور گہرا زخم پیٹ پر کھانا پڑا..
اسی لمحے میں نے چھلانگ لگائی اور اپنی کلہاڑی کا پھل پوری جان سے شیر کے سر میں پیوست کردیا..
شیر نے غضبناک ہوکر اپنا پنجہ میرے سینے پر مارا اور میں دور جاپڑا..
کلہاڑی شیر کے سر میں پیوست رہ گئی تھی..
میرے سینے پر گہرا گھائو لگ چکا تھا جس سے خون بھل بھل کرتا بہ رہا تھا..
میری کلہاڑی کا پھل ادھے سے زیادہ شیر کے سر میں پیوست تھا اور اس کے سر سے بہنے والا خون شاید اس کی انکھوں میں ارہا تھا جس کی وجہ سے وہ دیکھنے سے قاصر ہورہا تھا..
میں زمین پر پڑا تھا غار شیر کی غضبناک دھاڑوں سے گونج رہا تھا..
مگر جسم پر موجود تین گہرے زخموں کی وجہ سے اسکے جسم سے بے انتہا خون نکل چکا تھا..
نالتر نے چھلانگ لگائی اور خود کو بچاتے ہوئے پے درپے وار شیر کے جسم کے مختلف حصوں پر کرنے شروع کر دئیے..
شیر میں اب حملہ کرنے کی سکت نہیں تھی صرف دفاعی طور پر وہ نالتر کو اپنے پنجوں اور بھیانک جبڑوں کی زد میں لانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا..
چند لمحوں میں شیر تڑپتا ہوا زمین پر گرچکا تھا..
نالتر نے پوری طاقت سے ایک اخری ضرب شیر کی گردن پر لگائی اور اسکی کلہاڑی کا شاید پورا پھل شیر کی گردن میں دھنس گیا اس کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر شیر کی گردن میں پیوست رہ گئی اور وہ شیر کے مرنے کا انتظار کئے بناء بھاگتا ہوا میری طرف ایا اور اپنے دونوں ہاتھ میرے سینے کے گھائو پر رکھ دئے..
اسکے ہاتھ میرے خون میں لتھڑ گئے تھے مگر اگلے ہی لمحے اسکی انکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہوگئیں..
میرے سینے پر اب کسی زخم کا نام و نشان تک نہیں تھا صرف خون لگا ہوا تھا..
اس نے اپنی زبان میں کچھ کہنا شروع کیا مگر میں اس زبان سے نابلد تھا..
بہت پہلے اوپر والوں کو اندازہ ہوگیا تھا ہم شیر سے نبرد ازما ہیں..
قبیلے کے دو کلہاڑی بردار جوان تیزی سے پھسلتے ہوئے ارہے تھے..
اور چند لمحوں میں وہ ہمارے سامنے تھے اورحیرت سے کبھی شیر کو اور کبھی مجھے دیکھ رہے تھے..
نالتر نے اپنی زبان میں انھیں کچھ کہا یقینا وہ میرے زخم کے بارے میں بتا رہا ہوگا..
مجھے شدید الجھن ہورہی تھی ڈیں ان کی بات نہیں سمجھ رہا تھا..
میں نے انھیں انکے حال پر چھوڑا اور نالتر کو کلہاڑیاں نکالنے کا اشارہ کیا..
شیر کی دھاڑیں پہلے غراہٹوں میں تبدیل ہوئی تھیں اور اخرکار اب وہ سر ایک طرف کئے بے حس و حرکت خاموش پڑا ہوا تھا..
نالتر اور وہ دونوں جوان احتیاطا کلہاڑیاں تھامے شیر کی طرف بڑھے..
نالتر نے شیر کے سر میں پیوست میری کلہاڑی کھینچی مگر شیر بے حس و حرکت رہا..
کلہاڑی کاسہ سر میں بری طرح پیوست تھی..
شیر کے ارد گرد کی جگہ اسکے خون سے بری طرح بھر چکی تھی..
نالتر نے ایک پائوں شیر کی گردن پر رکھا اور میری کلہاڑی کے دستے کو تھام کر اخرکار اسے باہر کھینچ لیا..
میری کلہاڑی ایک ہاتھ میں تھام کر نالتر نے شیر کی گردن میں پیوست اپنی کلہاڑی بھی نکال لی..
میں نے اوپر رسیوں پر نظر دوڑائی تو پروفیسر اترتا ہوا نظر ایا اس سے اوپر قبیلے کا ایک شخص تھا..
پروفیسر نے اپنے ہاتھ میں کپڑے کی پٹیاں باندھ کر ہاتھوں کو رگڑ سے بچالیا تھا مگر رسی کے سہارے پھسلتے ہوئے نیچے اترنا مشقت طلب کام ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی تھا..
ذرا سی غلطی موت کا باعث بن سکتی تھی..
پروفیسر اور وہ قبیلے کا جوان ابھی بہت اوپر تھے..
میں نے اپنے ساتھ کھڑے دونوں لوگوں کو وہیں کھڑے رہنے کا اشارہ کیا اور نالتر کے ہاتھ سے کلہاڑی لے کر اسے اپنے ساتھ انے کا اشارہ کر کے اگے بڑھ گیا..
یہ یقینی بات تھی کہ شیر اس غار تک ایا تھا تو اس غار سے باہر جانے کا کوئی ناں کوئی اور راستہ ضرور موجود تھا..
میں نالتر کے ساتھ اسی طرف بڑھا جس طرف سے شیر ایا تھا..
جگہ جگہ اونچی نیچی چٹانیں اور پتھر تھے انھیں عبور کرتے ہوئے ہم اگے بڑھتے رہے..
اگے ایک تنگ سا راستہ نظر ارہا تھا میں نے سر پر موجود کیپ کی روشنی بند کر کے تھیلے میں سے سرچ لائٹ نکال کر جلا لی..
میری دیکھا دیکھی نالتر نے بھی اپنی کیپ میں لگی لائٹ بند کر لی..
چلتے ہوئے ہم اس تنگ راستے میں داخل ہوگئے یہاں عجیب سی بدبو اور سیلن محسوس ہوئی..
یہ راستہ بمشکل تین چار فٹ چوڑا تھا اور اس کی اونچائی مشکل سے پانچ فٹ تھی ہم دونوں بالکل جھکے ہوئے انداز میں اگے بڑھ رہے تھے..
اسی وقت میرے دماغ میں ناناجان کی اواز گونجی علی بیٹا تمھیں اکیلے نہیں انا چاہئے تھا قبیلے والوں کو انتظار کرلیتے ابھی تم شیر سے بمشکل نپٹ کر ائے ہو..
نانا جان میں صرف راستہ دیکھنے ایا ہوں مجھے پوری امید ہے مزید کوئی شیر نہیں ہوگا اگر ہوتا تو اب تک ضرور سامنے اچکا ہوتا میں نے سوچ میں ہی نانا جان کو جواب دیا..
شیر ناں بھی ہو کوئی اور مصیبت اگے منتظر ہوسکتی ہے ناناجان پریشانی سے بولے..
ارے نانا جان فکر مت کریں نالتر میرے ساتھ ہے اور اپ نے اس کا حوصلہ اور جی داری دیکھی ہے..
اپ بس پیچھے پروفیسر وغیرہ کا خیال رکھیں میں کچھ دیر میں واپس لوٹ ائوں گا اس راستے کا اخری سرا دیکھ کر..
علی بیٹا میں تمھارا بڑا ہوں تمھاری بہتری اور بھلائی چاہتا ہوں..
ناناجان میں اپ کا نواسہ ہوں اور بزدلی میرے خون میں نہیں ہے اپ پلیز میری فکر مت کریں پیچھے رہ جانے والوں پر نظر رکھیں بس..
تم بہت ضدی ہو علی ناناجان کی اواز سنائی دی اسکے بعد مجھے اپنے دماغ سے بوجھ ہٹتا ہوا محسوس ہوا..
مجھے اندازہ ہوگیا نانا جان نے دماغی رابطہ ختم کردیا ہے..
میں اورنالتر اگے بڑھتے جارہے تھے جیسے جیسے ہم اگے بڑھ رہے تھے اس راستے کی اونچائی کم ہوتی جارہی تھی اور غار کی بہ نسبت یہاں کچھ ٹھنڈ محسوس ہورہی تھی..
راستے کی اونچائی اب چار فٹ سے بھی کم رہ گئی تھی..
کھڑے ہوکر یا جھک کر اگے بڑھنا اب ممکن نہیں تھا..
ہم زمین پر دونوں ہاتھوں اور پائوں کے بل چلتے ہوئے اگے بڑھنے لگے..
اخرکار ہم اس طویل راستے کے اختتام پر پہنچے اور اس راستے کا دہانہ چند فٹ دور نظر انے لگا..
اچانک میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا میں نے اور نالتر نے کلہاڑیاں تھام لیں..
میں نے سرچ لائٹ زمین پر رکھ دی تھی اس کا منہ دہانے کی طرف تھا..
ہم اس تنگ سرنگ نما راستے پر ایسے پھنسے تھے کہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے...
میں اور نالتر دم سادھے دہانے کو دیکھ رہے تھے جہاں ایک قداور اور خونخوار بھیڑیا اپنی خوفناک انکھوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا..
چند لمحے میں اور نالتر ہاتھوں میں کلہاڑی تھامے بھیڑئے کی طرف سے حملے کے منتظر رہے..
مگر حیرت انگیز طور پر اسکی کسی حرکت یا انکھوں سے جارحیت نظر نہیں ارہی تھی..
میں نے نالتر کی طرف دیکھا اسی وقت نالتر کا جسم تن گیا..
میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں سامنے دیکھا تو وہ بھیڑیا اہستہ اہستہ چلتا ہوا ہماری طرف بڑھ رہا تھا..
مگر اس کے چلنے اور حرکات و سکنات میں ابھی بھی جارحیت یا حملے کا کوئی تاثر نہیں تھا..
میں سخت الجھن میں تھا وہ جنگلی بھیڑیا بہت پرسکون انداز میں اگے بڑھ رہا تھا..
ہم کلہاڑیاں ہاتھوں میں تھامے اس چار فٹ اونچی سرنگ میں گھٹنوں کے بل بیٹھے ادھے جھکے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے..
اگر وہ ہم پر حملہ کرتا تو ہمارا دفاع بے حد مشکل ہوجاتا مگر مجھے کہیں سے بھی اس کے حملہ کرنے کا تاثر نہیں مل رہا تھا..
بھیڑیا چلتا ہوا ہم سے چند فٹ دور اکر کھڑا ہوگیا..
چند لمحے وہ ہمیں دیکھتا رہا اسکے بعد وہ مڑا اور اس نے اپنا رخ دہانے کی طرف کر لیا اور اسکے بعد پلٹ کر ہمارے طرف دیکھا اور چند قدم اگے بڑھا اور دوبارہ رک گر گردن موڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگا جیسے وہ ہمارے اگے بڑھنے کا منتظر ہو..
یاحیرت..میں نے نالتر کی طرف دیکھا اس کی انکھوں میں بھی حیرت اور الجھن نمایاں تھی..
میں نے کلہاڑی واپس پشت کی بندشوں میں پھنسا لی اور سرچ لائٹ تھام لی مگر نالتر کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا اس نے ایک ہاتھ میں کلہاڑی تھامے رکھی اور ہم گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتے چند قدم اگے بڑھ گئے..
بھیڑیا جیسے ہمیں اگے بڑھتا دیکھ کر مطمئن ہوگیا ہو اسنے گردن واپس موڑی اور اگے بڑھ گیا مگر وہ چلتے ہوئے ہر چند قدم کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا شاید یہ کہ ہم اگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں..
اخرکار وہ چلتا ہوا دہانے سے باہر نکل گیا میں اور نالتر اس سے چند قدم ہی پیچھے تھے..
ہم نے بہت احتیاط سے دہانے سے باہر جھانکا یہ کمرہ نما چٹانی غار تھا جو برف سے بھرا ہوا تھا اس کا دہانہ اس رخ پر تھا کہ برف باری کی صورت میں اندر برف اتی تھی..
سرنگ کے دہانے سے کچھ دور ہی وہ بھیڑیا کھڑا منتظر نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا..
میں اور نالتر اس سرنگ سے باہر اگئے..
مرنے والا شیر یقینا اسی راستے سے باہر اتا ہوگا مگر بھیڑئے کا یہ انہونا اور عجیب رویہ مجھے الجھا رہا تھا..
ہمیں باہر اتا دیکھ کر اس بھیڑئے نے غار کے دہانے کی طرف قدم بڑھائے..
اور حسب معمول پلٹ کر دیکھتا رہا ہم اگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں..
میں اور نالتر اگے بڑھنے لگے اورغار کے دہانے تک پہنچ گئے..
دہانے تک پہنچتے ہیں میری انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں..
وہ بھیڑیا بھاگتا ہوا غار سے کچھ دور موجود لڑکی کے قدموں میں پہنچ گیا اور اس کی ٹانگوں سے اپنی تھوتھنی رگڑنے لگا..
وہ لڑکی پلواشہ تھی..میری جان حیات میری زندگی..
مگر یہ بھیڑیا..
پلواشہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ہماری طرف بڑھ رہی تھی..
نالتر ایک گھٹنے کے بل جھک گیا اور ہاتھ سینے پر رکھ کر اسے تعظیم دی..
پلواشہ نے سر ہلایا اور میرے پاس اکر میرے دونوں ہاتھ تھام لئے..
اسکی انکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں..
یہ بھیڑیا..میں نے اس بھیڑئے کو دیکھتے ہوئے سوالیہ نظروں سے پلواشہ کو دیکھا..
ہاں یہ کبانتا ہے پلواشہ نے جھک کر اس کا سر سہلایا..
کبانتا کا مطلب ہماری زبان میں محافظ ہے..
مگر یہ تمھارے ساتھ کیسے ہے اور یہ اس غار تک اور مجھ تک کیسے پہنچا ہے..
تم نے اپنا رومال ناناجی والے غار میں چھوڑ دیا تھا..
یہ انسانی بو پر سدھایا ہوا ہے اور بھیڑیوں کی سونگھنے کی حس بہت کمال کی ہوتی ہے..
جب تم شیر سے نپٹ کر اگے بڑھے تو نانا جی نے مجھے بتایا تھا..
یہ یقینی بات تھی اگر کوئی شیر غار میں موجود تھا تو یقینا اس غار میں داخلے کا کوئی اور راستہ بھی موجود ہونا چاہئے تھا جو نقشے میں بیان نہیں کیا گیا تھا..
میں نے کبانتا کو تمھارے رومال سے مانوس کیا اور لے کر وہاں سے چل پڑی..
کچھ دیر تلاش کے بعد اخرکار کبانتا نے تمھاری بو ڈھونڈ لی اور تمھیں مجھ تک لے ایا..
پیچھے پلٹ کر دیکھو وہ ناناجی والی غار ہے..
میں حیران ہوگیا ہم جس غار سے اندر داخل ہوئے تھے وہ ناناجی والی غار سے کافی فاصلے پر تھا پھر وہاں سے اگے بڑھے سرنگیں پار کیں اور اخرکار اس راستے سے باہر نکلے..
مگر یہ والا غار کا راستہ ناناجی والی غار سے تھوڑی ہی دور تھا..
اس کا مطلب وہ غار جہاں ہم گہرائی میں اترے تھے اس میں موجود چار فٹ والی سرنگ کا راستہ ناناجی والی غار کی طرف تھا ہم نے زیر زمین جو سفر طے کیا اسی غار کی طرف طے کیا تھا..
پلواشہ یہ ناممکن ہے ہم ایک طویل سرنگ سے گزر کر ائے ہیں اسکے بعد بھی غار تھا جہاں برف جمی تھی یہ کیسے مجھ تک پہنچ گیا..
دیکھ لو ناممکن نہیں تھا ورنہ یہ تم تک ناں پہنچ پاتا پلواشہ نے مسکراتے ہوئے کہا..
تم یہ بتائو خزانے تک پہنچے یا نہیں..
نہیں مجھے بے حد تجسس تھا کہ شیر کہاں سے ایا ہے سب لوگ رسیوں سے نیچے اتر رہے تھے میں نالتر کو لے کر اس طرف اگیا..
ناناجی نے نالتر کی بہادری کے بارے میں بتایا مجھے پلواشہ نے قبیلے کی زبان میں نالتر کو مخاطب کر کے کچھ کہا جس کے جواب میں اس نے مسکرا کر سر جھکا لیا یقینا پلواشہ نے اسکی بہادری کو سراہا ہوگا..
پلواشہ تم ناناجی کے پاس واپس جائو میں غار میں واپس جارہا ہوں..
نہیں میں تمھاری ساتھ جائوں گی پلواشہ نے التجائی نظروں سے مجھے دیکھا..
مگر پلواشہ ہمیں بالکل اندازہ نہیں مزید کون کون سی مصیبتیں ہماری منتظر ہیں میں تمھیں خطروں میں نہیں جھونک سکتا پلیز میری بات مان لو..
تمھارے اور نالتر کے ساتھ مجھے کوئی خطرہ نہیں اور تم دونوں کے ساتھ کبانتا ہے ناں میرا محافظ..
میں نے پلواشہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ ساتھ چلنے کے لئے بضد رہی..
اخرکار مجھے اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہم غار کی طرف بڑھ گئے..
غار میں پہنچ کر سب سے پہلے میں نے نالتر کو اس سرنگ نما حصے میں داخل ہونے کا اشارہ کیا اسکے بعد میں نے پلواشہ سے کہا کبانتا کو بھیجے پلواشہ نے اسے اشارہ کیا تو وہ بھی سرنگ میں داخل ہوگیا اس کے بعد پلواشہ گھٹنوں کے بل جھک کر سرنگ میں داخل ہوئی اور اخر میں بھی سرچ لائٹ لے کر سرنگ میں داخل ہوگیا..
سرنگ کا طویل راستہ طے کرنے کے بعد ہم اسی غار میں واپس پہنچ گئے جہاں سب لوگ موجود تھے..
یقینا ناناجان نے سروپ بابا کو وہیں رکنے کا کہا ہوگا اور انھوں نے سب کو وہیں روک کر رکھا تھا..
تمام لوگ رسیوں سے نیچے اچکے تھے اور ایک طرف بیٹھے تھے جب کہ گلوریا اور پروفیسر چاروں طرف گھوم پھر کر جائزہ لے رہے تھے..
ہم وہاں پہنچے تو سب حیرانگی سے ہمارے ارد گرد جمع ہوگئے..
علی یہ یہاں کیسے اور یہ بھیڑیا پروفیسر نے خوفزدہ نظروں سے کبانتا کو دیکھا..
یہ پلواشہ کا پالتو ہے اور اس غار سے نکلنے کا ایک اور راستہ ہے جہاں سے شیر اندر داخل ہوتا تھا میں نے پروفیسر سے مخاطب ہوکر کہا..
اپ بتائیں خزانے کے سلسلے میں کوئی کامیابی ہوئی..
نہیں..پروفیسر نے ایک لفظی جواب دے کر میری امیدوں پر پانی پھیر دیا..
پروفیسر نے ہاتھ میں تھاما ہوا نقشہ کھول کر میرے سامنے کردیا..
یہ دیکھو ہم اس جگہ موجود ہیں پروفیسر نے نقشے پر ایک جگہ انگلی رکھ کر کہا..
اس سے اگے یہ عجیب سے نشانات ہیں میں انھیں نہیں سمجھ پایا ہوں..
یہ دیکھو یہ جانوروں کی شبیہ ہے یہ شیروں کو ظاہر کیا گیا ہے..
بس یہ اخری اشارہ ہے جو اس نقشے میں موجود ہے..
شیر اس غار میں تھا جب ہم یہاں ائے تھے مگر شیر کے نشان کا اس نقشے سے جو مجھے تعلق نظر ایا وہ یہ تھا کہ یہاں شیر کی موجودگی کو ظاہر کیا گیا ہے بس نقشے کے مطابق یہاں بہت سے شیر ہونے چاہئیں تھے مگر ہمارا واسطہ صرف ایک شیر سے پڑا..
یہ نقشہ سینکڑوں سال پرانا ہے ہوسکتا ہے کسی وقت میں یہاں بہت سے شیر ہوتے ہوں اب انکی نسل کسی وجہ سے معدوم ہوگئی ہو..
ہاں یہ ممکن ہے پروفیسر نے بے بسی سے کندھے اچکائے ہمارے پاس اگے کا کوئی اشارہ نہیں..
ہم منزل پر پہنچ کر بھی منزل سے دور تھے..
ہم نہیں جانتے تھے خزانہ کہاں ہے اور نقشے میں اس کا کوئی سراغ نہیں تھا..
یہ طے تھا کہ خزانہ یہیں کہیں ہے مگر کہاں یہ کیسے ڈھونڈیں سینکڑوں فٹ بلند چھت اور سینکڑوں فٹ لمبی چوڑی اس غار کے کس حصے میں خزانے کو کس طرح پوشیدہ کیا گیا ہے ہم نہیں جانتے تھے..
خزانہ یہاں تھا بھی یا یہ نقشہ صرف ڈھکوسلہ تھا..
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا..
شاید خزانہ کہیں موجود ہو مگر ہم اسے کھوجنے سے قاصر تھے..
ہم سب غار کی دیواروں پر اپنے اپنے طور پر کوشش کرتے رہے..
دیواریں بجا کر ٹھونک کر ہر طرح سے ہم اس تلاش میں رہے کہ کہیں کوئی چور راستہ ہو یا کوئی ایسی جگہ جہاں خزانہ موجود ہو..
مگر گھنٹوں کی یہ مشقت لاحاصل رہی اور ہم مایوس ہوگئے..
اخرکار طے پایا کہ واپس چلیں اور پھر کسی وقت اکر کوشش کی جائے..
اب ہمیں اس نئے راستے کا علم تھا اس لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا..
اخرکار ہم نے اپنا سامان سمیٹا اور اس تنگ غار نما سرنگ کی طرف بڑھ گئے..
اگے قبیلے کے دو جوان پھر گلوریا اور پروفیسر پھر قبیلے کے باقی جوان اور اخر میں پلواشہ اور میں اس سرنگ نما راستے میں گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے داخل ہوئے اور دوسرے سرے سے باہر اکر ناناجی والی غار کی طرف چل پڑے اور کچھ ہی دیر میں ہم ناناجی کے سامنے تھے..
میں نے ناناجی کو کہ کر سب کو قبیلے واپس بھجوا دیا صرف نالتر کو اپنے پاس روک لیا..
کبانتا اب مجھ سے بھی کسی حد تک مانوس ہوچکا تھا..
ہمارا تھکاوٹ سے برا حال تھا کھانا کھا کر میں اور نالتر غار کے ایک کونے میں اونی بستر بچھا کر سوگئے..
پلواشہ اور نانا جان ہمارے سونے تک جاگ رہے تھے اور کبانتا حسب معمول پلواشہ کے قدموں میں بیٹھا تھا..
میری انکھ کھلی تو رات کا پچھلا پہر تھا..
میں نے اٹھ کر دیکھا پلواشہ اور ناناجان دور دوسرے کونے میں سوئے ہوئے تھے..
نالتر جاگ رہا تھا مگر مجبوری تھی میں قبیلے کی زبان سے نابلد تھا اور اس سے کوئی بات نہیں کر سکتا تھا..
نیند پوری ہوچکی تھی میں نے اس وقت دوبارہ غار کی طرف جانے کا ارادہ کیا..
میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر نالتر کو خاموش رہنے اور اپنے ساتھ انے کا اشارہ کیا..
ہم نے کلہاڑیاں تھامیں اور دو سرچ لائٹیں اٹھا کر خاموشی سے ناناجی والی غار سے باہر اگئے ہمارا رخ خزانے والی غار کی طرف تھا..
کچھ ہی دیر میں ہم اس تنگ سرنگ نما راستے سے گزر کر اسی غار میں پہنچ گئے..
سرچ لائٹیں ہم نے جلائی ہوئی تھیں..
ہم دونوں ایک بار پھر دیواروں اور غار کے ہر حصے کا بغور جائزہ لیتے رہے میں نے ہر ممکن کوشش کر لی مگر شاید یا تو خزانہ نہیں تھا کہیں یا ہم اسے ڈھونڈنے میں ناکام تھے..
ہم دونوں وہیں غار کی ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے..
مجھے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ خزانے کا کوئی کلیو نقشے میں نہیں تھا سوائے شیروں کی تصاویر کے..
میں غور کرتا رہا اچانک میرے ذہن میں ایک خیال ایا..
میں جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور نالتر کے ساتھ اس سرنگ نما راستے کی طرف بڑھ گیا..
میں نے نالتر کو سرچ لائٹ پکڑائی اور خود کلہاڑی تھام لی..
سرنگ میں گھٹنوں کے بل اگے بڑھتے ہوئے میں کلہاڑی کے الٹے سرے سے دیواریں اور چھت ٹھونک کر چیک کرتا جارہا تھا..
اگر دیوار کے پیچھے خلاء ہوتا تو اواز بدل جاتی..
اچانک میری نظر چھت پر موجود ایک پتھر پر پڑی..
اس سرنگ کی پوری چھت سرنگ کی صورت تراشی ہوئی تھی مگر وہاں چند انچ لمبا اور چوڑا پتھر الگ سے چھت میں چنا ہوا تھا جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی..
میں نے اس پتھر پر ضربیں لگائیں مگر کچھ نتیجہ نہیں نکلا..
پتھر اتنی صفائی سے چھت میں چنا ہوا تھا کہ بادی النظر میں وہ محسوس نہیں ہوتا تھا..
میں نے کلہاڑی کے پھل سے پتھر کے گرد کلہاڑی کے پھل سے درز بنانے کی کوشش کی اور کامیاب رہا..
میرے پاس چھینی ہتھوڑی ہوتی تو میرے لئے اس پتھر کو توڑنا اسان ہوتا..
کلہاڑی کے پھل سے یہ کام کافی مشکل ثابت ہوا..
کئی منٹ کی مشقت کے بعد میں پتھر کے چاروں طرف باریک درز بنانے میں کامیاب ہوگیا..
اسکے بعد میں نے اس درز میں کلہاڑی کا پھل پھنسایا اور اس پتھر کو نکالنے کی کوشش کرنے لگا مگر پتھر بہت مظبوطی سے وہاں پیوست تھا..
میں نے نالتر کی کلہاڑی لے کر اسے درز میں ایک طرف پھنسایا اور دوسری طرف اپنی کلہاڑی اس درز میں پھنسائی اور اسے اکٹھا زور لگانے کا کہا..
کافی کوششوں کے بعد پتھر اپنی جگہ سے ہلا اور اخرکار وہ چھت سے الگ ہوکر زمین پر گر پڑا..
پتھر ہٹتے ہی مجھے منزل قریب نظر انے لگی..
پتھر کے نیچے چھت میں ایک لوہے کا گول کڑا نصب تھا یہ بالکل ویسا ہی کڑا تھا جیسے اوپر دلدل اور سانپوں والی سرنگوں میں نصب تھے..
میں نے اس کڑے کو پکڑ کر پوری قوت سے نیچے کی طرف جھٹکے سے کھینچا..
اچانک دور کہیں گڑگڑاہٹ کی تیز اواز گونجی مگر یہ سرنگ میں نہی تھی..
میں نالتر کے ساتھ واپس پلٹا اور غار کی اندرونی طرف لوٹ ایا..
غار کی ساخت اس طرح کی تھی کہ جگہ جگہ بہت بڑے بڑے اونچے نیچے چٹان نما پتھر تھے..
گڑگڑاہٹ کی اواز کا مطلب صاف تھا کہ کہیں سے کوئی دروازہ کھلا ہے یا دیوار اپنی جگہ سے سرکی ہے مگر ہمیں سرنگ میں ایسا کچھ نظر نہیں ارہا تھا..
چاروں طرف گھومتے پھرتے غار کے اخری سرے پر پہنچتے ہی ہمیں ایک قد ادم چٹانی پتھر کے پیچھے ایک پانچ چھ فٹ اونچا اور چار پانچ فٹ چوڑا دروازہ نظر ایا..
یقینا یہاں سے دیوار سرک کر اپنی جگہ سے ہٹی تھی..
میں نے اور نالتر نے کلہاڑیاں تھام لیں نالتر کے ایک ہاتھ میں سرچ لائٹ تھی ہم احتیاط سے چلتے ہوئے اس دروازے سے اندر داخل ہوگئے.
نالتر مجھ سے ایک قدم پیچھے تھا جیسے ہی میں نے ایک قدم اگےبڑھایا میرے قدموں تلے سے زمین غائب ہوگئی اور میں گہرائی میں گرتا چلاگیا..
میرے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر گر چکی تھی..
دو چار لمحوں بعد میرے پائوں زمین سے ٹکرائے اور میری ٹانگوں کو زوردار جھٹکا لگا..
میں چند لمحے اپنے ہواس بحال کرتا رہا پھر کھڑا ہوگیا..
میں نے سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا تو بارہ پندرہ فٹ بلندی سے نیچے اتی سرچ لائٹ کی روشنی دکھائی دی..
نالتر ایک قدم پیچھے ہونے کی وجہ سے بچ گیا تھا..
میں نے چاروں طرف کا جائزہ لیا..
یہ ایک چوکور سا خانہ تھا جو مشکل تین چار فٹ چوڑا تھا نالتر کے ہاتھ میں پکڑی سرچ لائٹ سے یہ جگہ منور ہورہی تھی..
میں نے چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھا ایک کونے میں مجھے ایک ابھرا ہوا پتھر نظر ایا..
میں نے قریب جاکر اسے دبایا تو سامنے والی دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوگیا..
اندر اندھیرا تھا میں نے نالتر کو سرچ لائٹ نیچے پھینکنے کا اشارہ کیا بہت دیر کی مغزماری کے بعد اسے میری بات سمجھ ائی..
میں نے اپنا اونی کوٹ اتارا اور چوڑا کر کے اسے تھام لیا تاکہ نالتر سرچ لائٹ پھینکے تو محفوظ رہے..
نالتر نے سرچ لائٹ نیچے پھینکی جو میں نے تھام لی اور اونی کوٹ واپس پہن کر سرچ لائٹ کی روشنی دروازے سے اندر ڈالی اور دروازے میں داخل ہوگیا..
اندر داخل ہوکر مجھے حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا..
یہ مشکل سے دس بائے دس فٹ کا کمرے تھا جس کی چھت بھی اتنی ہی اونچی تھی..
اس کمرے کے وسطی دیوار کے ساتھ لکڑی کے پانچ فٹ چوڑے اور تین فٹ اونچے چھ صندوق رکھے تھے..
یقینا یہ خزانے کے ہی صندوق تھے ان میں کیا موجود تھا یہ کھول کر ہی دیکھا جا سکتا تھا..
مجھے اچانک خیال ایا نالتر کود کر نیچے ناں اجائے ورنہ ہم دونوں یہاں پھنس جاتے..
میں پلٹ کر کمرے سے باہر ایا اور اوپر کی طرف روشنی ڈالی..
نالتر نیچے جھکا پر تجسس نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا..
میں نے اسے واپس جا کر رسی لانے کا اشارہ کیا..
اسے اشاروں کی زبان میں سمجھانا گویا بھینس کے اگے بین بجانے جیسا تھا میں اسے اشاروں سے سمجھاتا رہا اور اخرکار اس نے سر ہلایا اور اس کا سر اوپر دیوار سے غائب ہوگیا..
میں واپس کمرے میں داخل ہوا اور صندوقوں کے پاس پہنچ گیا..
تین تین کی دو قطاروں میں صندوں تھے میں نے ایک قطار کے سب سے اوپر والے صندوق کو ہلانے کی کوشش کی مگر وہ بے انتہا وزنی تھا..
میرے پاس اوپر نو فٹ کی بلندی پر چڑھ کر صندوق کھولنے یا اسے اتارنے کا کوئی راستہ نہیں تھا..
مجھے اب نالتر کا انتظار کرنا تھا یا ناناجی کے بیدار ہونے کا تاکہ ان سے مدد کے لئے لوگ بھجوانے کا کہوں..
میں کمرے سے باہر اسی چوکور خانے نما جگہ میں اگیا اور سائیڈ کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا..
ادھے پونے گھنٹے کے انتظار کے بعد نالتر کا چہرہ اوپر نظر ایا مگر ساتھ ہی پلواشہ کا چہرہ بھی تھا..
میں نے حیرانگی سے پلواشہ کو دیکھا..
شاید پلواشہ جاگ رہی تھی اور نالتر کے ساتھ اگئی تھی..
نالتر نے ایک رسی نیچے پھینکی جو شاید اس نے باہر کسی چٹانی پتھر سے باندھ دی تھی..
پلواشہ سب کچھ جاننا چاہ رہی تھی مگر میں نے پلواشہ کو اوپر ہی رکنے اور نالتر کو نیچے بھیجنے کا کہا..
چند ہی لمحوں میں نالتر رسی کے سہارے لٹک کر نیچے اگیا..
ہم دونوں کمرے میں داخل ہوگئے اور میں نے سرچ لائٹ زمین پر رکھ دی..
نالتر کی انکھوں میں حیرانگی اور خوشی کے تاثرات تھے شاید اسے بھی اندازہ ہوگیا تھا یہ خزانے کے صندوق ہیں..
میں اور نالتر صندوقوں کی طرف بڑھے اور کافی مشقت کے بعد ایک صندوق کو کھسکا کر نیچے اتارنے میں کامیاب ہوئے..
میں نے جیسے ہی صندوق کا ڈھکن اٹھایا میری انکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں..
پورا صندوق منہ تک سونے کے سکوں سے بھرا ہوا تھا..
نالتر کی انکھیں بھی سونے کی چمک دمک سے خیرہ ہورہی تھیں مگر ان میں لالچ نہیں تھا..
مجھے اہٹ سنائی دی میں جھٹکے سے پلٹا تو پیچھے پلواشہ نظر ائی..
اس سے انتظار نہیں ہوا تھا اور وہ رسی کے ذریعے نیچے اگئی تھی اور چلتی ہوئی ہمارے پاس اگئی تھی..
اس کی انکھوں میں بھی حیرانگی اور خوشی کے تاثرات تھے..
میں نے ایک سکہ اٹھا کر دیکھا یہ کم سے کم بیس پچیس گرام کا ایک سکہ تھا مگر قدیم زمانے کا ڈھلا ہوا تھا اس پر کسی قسم کی کوئی شبیہ یا نشان نہیں تھا اور چوکور سی ساخت کا تھا..
ہم نےباری باری تمام صندوق کھولے پانچ صندوقوں میں صرف یہی سکے بھرے ہوئے تھے..
بلاشبہ اس سونے کی مالیت کروڑوں نہیں اربوں کھربوں روپے تھی..
اب اخری صندوق بچا تھا میں نے ہاتھ بڑھا کر جیسے ہی اسے کھولا کمرہ جگمگا اٹھا..
صندوق ہیرے جواہرات سےبھرا ہوا تھا..
میں نے اپنی زندگی میں تصاویر میں بھی اس سائز کے ہیرے جواہرات نہیں دیکھے تھے..
میں اٹھ کھڑا ہوا اور میرے ساتھ نالتر اور پلواشہ بھی کھڑے ہوگئے..
ہمارے سامنے خزانے کے سارے صندوق کھلے ہوئے تھے اور ہم مسحور ہوکر اس خزانے کو دیکھ رہے تھے..
یہ خزانہ اب یہاں غیر محفوظ ہوگیا تھا..
اس تک پہنچنے کے لئے جس کڑے کو ہم نے کھینچا تھا اس پر موجود پتھر ہم نے توڑ دیا تھا..
اب اس سرنگ سے کوئی بھی گزرتا اس کڑے پر اس کی نظر ضرور پڑتی..
پلواشہ میں باقی باتیں تو بعد میں کروں گا مجھے یہ بتائو اس خزانے کو کہیں چھپانے کی کوئی اور محفوظ جگہ ہے..
ہاں ہے ناناجی کی غار میں ایک خفیہ کمرہ ہے پلواشہ نے جواب دیا..
بس تو ہم اپنے بھروسے کے لوگوں کو لاکر اس خزانے کو یہاں سے صبح منتقل کر دیں گے اب چلو یہاں سے..
میں پلواشہ اورنالتر کمرے سے باہر اگئے اور میں نے اسی پتھر کو دبایا جس کے دبانے سے دروازہ نمودار ہوا تھا..
پتھر کے دبانے سے سائیڈ سے چٹانی دیوار سرک کر سامنے اگئی اور دروزہ بند ہوگیا..
میں نے نالتر کو رسی کے سہارے واپس اوپر جانے کا اشارہ کیا نالتر نے رسی تھامی اور قدم دیوار پر جماتا ہوا اوپر چڑھتا چلا گیا اوپر پہنچنے کے بعد میں زمین پر بیٹھ گیا اور پلواشہ کو اپنے کندھوں پر کھڑا ہونے کا کہا..
میرا قد چھ فٹ دو انچ تھا اور پلواشہ کا ساڑھے پانچ فٹ نتیجتا جب میں پلواشہ کو کندھوں پر لے کر کھڑا ہوا تو اونچائی چند فٹ ہی رہ گئی..
پلواشہ رسی تھامے ذرا سی اوپر گئی ہوگی تو نالتر نے جھک کر اس کا ایک ہاتھ تھام کر اسے اوپر کھینچ لیا...
اخر میں رسی کے سہارے چڑھتا ہوا میں اوپر پہنچ گیا قریب پہنچ کر نالتر نے اپنا ہاتھ دیا اور مجھے اوپر کھینچ لیا..
کبانتا حسب معمول پلواشہ کے ساتھ تھا اور اس کی ٹانگوں میں اگے پیچھے گھوم رہا تھا..
ہمارے اوپر پہنچنے کے بعد نالتر نے چٹانی پتھر سے بندھی رسی کھول کر سمیٹ دی..
میں نے پلواشہ سے کہا کہ نالتر سے کہے کہ وہ واپس سرنگ میں جا کر کڑا کھینچ کر اس جگہ کو بند کر دے..
پلواشہ کی بات سن کر نالتر اس سرنگ کی طرف بڑھ گیا اور گھٹنوں کے بل چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا..
کچھ دیر میں گڑگڑاہٹ کی اواز کے ساتھ وہ راستہ بند ہوگیا یقینا نالتر نے کڑے کو دبا کر اس راستے کو بند کیا تھا..
نالتر واپس ایا تو ہم تینوں باہر اگئے اور ناناجی والے غار ڈی طرف چل دئے صبح ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی..
کچھ دیر میں ہم واپس غار کے پاس پہنچ گئے..
ناناجی ہر روز صبح ہونے سے پہلے جاگتے ہیں اور سانس ک مشق کرتے ہیں اج ناناجان غار سے باہر نہیں ائے پلواشہ کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے..
ہم تیز قدموں سے غار میں داخل ہوئے تو ناناجی اپنے بستر پر ہی دراز تھے..
انھوں نے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھایا اور ہمیں پاس انے کا اشارہ کیا..
پلواشہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی ناناجی کے پاس پہنچی اور بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھام لیا مگر ناناجی میری طرف متوجہ تھے..
میں ناناجی کے بستر کے دوسری طرف بیٹھ گیا اور ان کا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا..
علی بیٹا میرا وقت پورا ہوچکا ہے انسان کا جسم ایک مشین کی طرح ہے جس کی کارکردگی وقت کے ساتھ گھٹتی رہتی ہے..
جب اس مشین کے پرزے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے تو مشین چلنے سے انکار کردیتی ہے یہی موت ہے بس..
میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں میرے جسم کی مشین کے پرزے اب جواب دے چکے ہیں..
بیٹا ہم مقدر کے لکھے کو نہیں ٹال سکتے مگر تدبیر سے تقدیر کو بدلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے..
ناناجان..میں نے انھیں ایسی باتیں کرنے سے روکنا چاہا مگر انھوں نے مجھے خاموش کروا دیا..
میں چاہتا ہوں تم میری اخری وصیت پر عمل کرو..
میری سانسیں ختم ہونے والی ہیں میں ان سانسوں کو اپنے وجود میں قید کر سکتا ہوں..
میں جو کہ رہا ہوں غور سے سنو..
میں نے زندگی بھر سانس کو اپنے قابو میں رکھا ہے..
زندگی صرف سانسوں کے چلنے کا نام ہے..
سانس رک جائے تو زندگی ٹھر جاتی ہے..
میں اپنی زندگی کو اور اس جسم کو اسی مقام پر روک سکتا ہوں..
میرا جسم زندہ رہ سکتا ہے ایک طویل عرصے تک..
میں اپنی سانسوں کو جسم میں قید کر لوں گا اور میرا اس دنیا سے رابطہ ختم ہوجائے گا اسکے بعد میرے جسم کو اس کمرے میں رکھ دینا جو اس غار میں ہے..
اب سوال یہ ہے کہ میں ایسا کیوں چاہتا ہوں..
علی بیٹا میں نے کہا تھا ہم دیوتائوں کے دئے گئے علوم سے انے والے وقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں..
میرے ستارے کہتے ہیں اگر میں ایک مخصوص مدت تک سانس کو اپنے اندر قید کر کے دنیا سے ناطہ توڑ کر جب واپس ائوں گا تو طویل زندگی جئیوں گا..
میں نہیں جانتا یہ واقعی ممکن ہوپائے گا یا نہیں مگر میرے ستاروں نے کبھی مجھے غلط نہیں بتایا..
اس غار کے خفیہ کمرے کا راستہ پلواشہ کو معلوم ہے میرے جسم کو اس کمرے میں محفوظ کرنا تمھاری ذمہ داری ہے..
میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے میں نے کہا تھا میں تمھیں ٹیلی پیتھی سکھا نہیں سکتا دان کر سکتا ہوں میرے اندر سانس کی شکتی سے لے کر باقی تمام شکتیاں میں تم میں منتقل کر سکتا ہوں..
میرے سامنے ائو ناناجی نے حکم دیا..
میں انکے چہرے کے سامنے اگیا اور انھوں نے اپنی انکھیں میری انکھوں میں جیسے پیوست کردیں..
مجھے یوں محسوس ہوا جلتے ہوا سورج میری انکھوں میں اتر ایا ہو..
یہ کیفیت چند لمحے رہی اس کے بعد اس سورج کی تپش مدھم پڑنے لگی اور اہستہ اہستہ ختم ہوتی گئی..
اگلے چند لمحوں میں ناناجی کی انکھیں خودبخود بند ہوگئیں..
میں نے پلواشہ کی طرف دیکھا وہ پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی..
اس سے نظریں ملتے ہی مجھے لگا میں پلواشہ کے دماغ میں ہوں جہاں ناناجی کے لئے دکھ اور غم کی کیفیت کے ساتھ میری انکھوں کا خوف تھا اور تپش تھی جو اسے جھلسا رہی تھی..
میں نے نظریں ہٹا کر ناناجی کو دیکھا جو بے حس و حرکت تھے..
ناناجی نے سانس کو سینے میں قید کرلیا تھا..
پلواشہ کے چہرے پر دکھ اور غم کے اثار نظر ائے اور اس نے ناناجی کا ہاتھ تھامے ہوئے ان کے سینے پر سر رکھ دیا..
میں نے اپنا ہاتھ اسکے سر پر رکھا اور بہت دیر تک اپنی انگلیاں اسکے بالوں میں پھیرتا رہا..
ناناجی کے جسم کو اس خفیہ کمرے میں لے جانے سے لے کر خزانے کو اس کی جگہ سے ناناجی کی غار کے خفیہ کمرے تک لانے اور محفوظ کرنے میں ہمیں پورا دن گزر گیا..
حیرت انگیز طور پر اب میں قبیلے کی زبان سمجھنے اور بولنے لگا تھا..
ناناجی کی ٹیلی پیتھی اور سانس کی شکتی کے ساتھ زبان کا علم بھی مجھ میں منتقل ہوگیا تھا..
اگرچہ تجربات جاری ہیں مگر جدید میڈیکل سائنس اب تک ایسی کوئی مشین نہیں بنا سکی جس کے ذریعے ایک شخص کی صلاحیتیں دوسرے شخص میں منتقل کی جا سکیں..
مگر روحانیت کی دنیا میڈیکل سائنس سے بہت الگ ہے سائنس صرف ان چیزوں پر یقین رکھتی ہے جنھیں دیکھا, پرکھا اور ثابت کیا جا سکتا ہے اسی لئے روح یا جنات و دیگر چیزوں کو سائنس تسلیم نہیں کرتی مگر یہ مسلمہ حقیقتیں ہیں.
نالتر حسب معمول ہر کام میں ہمارے ساتھ تھا اس خفیہ کمرے کا راز اب میرے نالتر اور پلواشہ کے درمیان تھا..
خزانے کو ہم نے قبیلے والوں کی مدد سے غار تک منتقل کیا تھا..
اسکے بعد غار سے اندر کمرے میں لے جانے کے لئے ہم نے کسی سے مدد نہیں لی..
میں نے کافی سارے سونے کے سکے اس میں سے نکال کر اپنے پاس رکھ لئے تھے..
رات میں نے نالتر نے اور پلواشہ نے غار میں گزاری..
اگلے دن میں نے قبیلے جاکر سب کے سامنے پلواشہ کو سرداری سونپ کر چچی جان کو اس کا نائب مقرر کیا اور نالتر کو لے کر قبیلے سے نکل ایا..
میں جلد از جلد قبیلے کو منظم اور اباد کر کے یہاں سے واپس شہر جانا چاہتا تھا..
ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد ہم قریبی ابادی سے ہوتے ہوئے شہر تک پہنچے اورسرائے میں رات گزارنے کے لئے رک گئے میرے پاس موجود تھیلے میں سونے کے سکے بھرے ہوئے تھے..
رات کا وقت تھا سرائے کے ایک کمرے میں نالتر اور میں الگ الگ بستر پر دراز تھے..
میں نے نالتر سے دماغی رابطہ کیا اس کی سوچیں بے ترتیب تھیں میری صلاحیتوں سے وہ خوفزدہ بھی تھا مگر سب سے اہم بات وہ دل و جان سے میرا وفادار تھا اور میرے پسینے کی جگہ اپنا خون بہا سکتا تھا انسان کی زبان جھوٹ بول سکتی ہے مگر اس کے خیالات ہمیشہ سچ بولتے ہیں میں نالتر کی طرف سے مطمئن ہوگیا..
میرا دل چاہ رہا تھا پلواشہ سے دماغی رابطہ کرنے کا مگر رات بہت زیادہ ہوچکی تھی میری جان حیات یقینا سوچکی ہوگی اس لئے اس سے باتیں کرنے کا پروگرام اگلے دن تک موخر کر کے میں نے دماغ کو ہدایات دیں اور گہری نیند سوگیا..
اگلے دن صبح ہم نے ناشتہ کیا اور باہر نکل ائے..
میں چاہ رہا تھا سطح زمین پر ابتدائی طور پر بائونڈری اور اس کے چاروں طرف حفاظتی چوکیاں تعمیر کی جائیں..
مگر سب سے بڑا مسئلہ مشینری اور تعمیراتی سامان کو وہاں تک پہنچانا تھا پھر وہاں برف کی کئی انچ موٹی تہ کو ہٹا کر پتھریلی اونچی نیچی زمین کو برابر کرنا پھر ان پر تعمیرات کرنا اور اس دوران اگر گورنمینٹ کی طرف سے مداخلت ہو تو اس کا سد باب کرنا..
پہلے میں نے سوچا سرکاری معاملات سے نپٹ لیا جائے مگر ایک تو اس میں بہت زیادہ وقت لگتا دوسرا بہت سی الجھنیں پیدا ہوجاتیں بہتر یہی تھا جب کوئی اعتراض کرتا تو اسے مسئلے کو تب حل کر لیا جائے..
اس سےبڑا مسئلہ میرے پاس موجود سونے کو بیچنے کا تھا..
میرے پاس قدیم دور کے سکے تھے اگر یہ بازار میں بیچتا تو اج نہیں تو کل یہ بات پھیل جاتی اور مصیبتوں کا اغاز ہوجاتا..
میرے ذہن میں یہ خیال دیر سے ایا ورنہ اس کا انتظام کر کے اتا..
بازار اکر میں نے ایک بڑا ہتھوڑا خریدا اور نالتر کے ساتھ چلتا ہوا دور ایک ویرانے میں نکل ایا..
میں نےنالتر کو ارد گرد نظر رکھنے کو کہا اور ایک بڑاچٹانی پتھر تلاش کر کے اس کے پاس بیٹھ گیا..
میرے پاس سو کے قریب سونے کے سکے تھے..
ہر سکہ تقریبا پچیس گرام کا تھا اس حساب سے میرے پاس ڈھائی کلو کے اس پاس سونا تھا مطلب دو کروڑ سے زیادہ کی مالیت..
میں نے دس سکے نکالے اور انھیں اپر تلے رکھ کر ہتھوڑے سے کوٹنا شروع کردیا..
کچھ ہی دیر میں سکے چپٹے ہوکر اپنی ساخت کھو بیٹھے..
میں نے ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر تمام سکوں کو موٹے ٹکڑوں کی صورت کردیا اس کام میں ایک ڈیڑھ گھنٹا صرف ہوگیا..
مگر اب میرے پاس سکوں کے بجائے ڈھائی ڈھائی سو گرام کے ٹکڑے تھے..
دنیا کا کوئی شخص اب انھیں سکوں کی صورت شناخت نہیں کر سکتا تھا..
میں نے یہ کام ختم کر کے اپنے پاس موجود کرنسی سے نالتر اور اپنے لئے لباس کا انتظام کیا..
میرا ارادہ اسلام اباد جانے کا تھا وہاں اس سونے کو بھی ٹھکانے لگایا جاسکتا تھا اور قبیلے کے حوالے سے انتظامات کو بھی فائنل کیا جا سکتا تھا..
کپڑے تبدیل کر کے میں اور نالتر روانہ ہوگئے ہمارے پاس حفاظت کے نام پر صرف دو خنجر تھے جو ہم نے اپنے لباسوں میں چھپائے ہوئے تھے..
طویل سفر طے کرنے کےبعد ہم اسلام اباد پہنچے اور کشمیر ہائی وے اور ابپارہ مارکیٹ سے ہوتے ہوئے میلوڈی فوڈ پارک کے قریب اسلام اباد ہوٹل اگئے..
یہاں میں نے ڈبل روم بک کروایا سامان کے نام پر بس ہمارے پاس ایک بیگ تھا جو سونے سے بھرا تھا اور نالتر نے اٹھایا ہوا تھا..
نالتر کے لئے یہ سفر, شہر, سواریاں, بازار اور سب کچھ بہت انہونا اور نیا تھا وہ حیرانگی سے ہر چیز کو دیکھتا تھا مگر اس میں اچھی خوبی یہ تھی کہ سوال نہیں کرتا تھا اور میرے مزاج کو خوب سمجھنے لگا تھا کہ میں سنجیدہ اور خاموش طبیعت کا ہوں اس لئے خاموش رہنا اور صرف کام کی حد تک بات کرنا ہی پسند کرتا ہوں..
کھانا ہم راستے میں کھا چکے تھے کچھ دیر ارام کر کے اور چائے پی کر میں نے بیگ نالتر کو دیا اور اسے کمرے میں رکنے کا کہا اور ایک سونے کا ٹکڑا لے کر جیولرز مارکیٹ اگیا..
میرے پاس تقریبا ڈھائی سو گرام سونا تھا میں مختلف دکانوں پر جاتا رہا اور زیورات پسند کرنے کے بہانے وہاں کے مالک اور ملازمین کے خیالات پڑھتا رہا..
میں کسی ایسی دکان کی تلاش میں تھا جو غیر قانونی سونے کے لین دین میں ملوث ہو اور جس سے مستقل کاروبار کیا جاسکے..
اخر کافی تلاش بسیار کے بعد ایک جگہ ایک چھوٹی سی دکان میں داخل ہوا جہاں ایک سیلز مین لڑکا اور کائونٹر پر ایک بوڑھا موجود تھا..
میں نے زیورات کے ڈیزائن دیکھنے کے بہانے اس بوڑھے کا دماغ پڑھنا شروع کیا تو مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے..
بظاہر اجڑی ہوئی اور خالی دکان میں بیٹھا یہ بوڑھا کروڑ پتی تھا اور غیر قانونی سونے سے لے کر اسلحے اور ہر قسم کی منشیات کا دھندا کرتا تھا مگر دو نمبر کام بھی ایمانداری سے کرتا تھا..
دکان میں موجود لڑکا اس کا سگا بیٹا تھا جو اس کے ہر کام میں اس کا شریک تھا..
میں نے ادھر ادھر کی باتوں کے بجائے ڈائریکٹ بات کرنے کا فیصلہ کیا اور سونے کا ٹکڑا نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا..
میں اسے بیچنا چاہتا ہوں کوئی رسید نہیں کوئی ریکارڈ نہیں نقد سودا میں نے بوڑھے کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا..
بوڑھے کی انکھوں میں حیرانگی نظر ائی اس نے سونے کا ٹکڑا اٹھایا اور اسے کسوٹی پر پرکھا پھر اس کا وزن کیا جو ڈھائی سو گرام سے کچھ زیادہ تھا اسکے بعد گہری سانس لے کر میری طرف دیکھا پھر بیٹے کو مخاطب ہوا..
بیٹا دکان کے باہر بورڈ لگا دو..
میں سمجھ گیا ڈونٹ ڈسٹرب یا اس طرح کا کوئی بورڈ ہوگا بوڑھا یقینا کسی اور کی مداخلت نہیں چاہ رہا تھا..
اس سے پہلے بوڑھا کچھ کہتا میں اس سے مخاطب ہوا کوئی سوال نہیں ناں ہی میں کسی سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں..
اگر ہماری ڈیل بنی تو اس طرح کے ٹکڑے اپ کو ملتے رہیں گے سودا نقد ہوگا اگر کسی قسم کا شک یا کوئی مسئلہ ہے تو صاف کہ دیں میں کہیں اور سودا کر لوں گا..
تم میری زندگی کے عجیب و غریب گاہگ ہو بوڑھا کھوجتی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا..
اگر میں کہوں کہ میں غیر قانونی اور ریکارڈ کے بناء کام نہیں کرتا..
اگر ایسا ہوتا تو اپ دکان کے باہر بورڈ لگا کر اسے بند ناں کرواتے میں نے اس کی انکھوں میں دیکھ کر کہا..
ناں ہی میں اینٹی کرپشن سے ایا ہوں ناں کسی ایجینسی کا بندہ ہوں ناں ہی تمھاری جاسوسی کرنے ایا ہوں..
مگر میں یہ بھی نہیں چاہتا اپ میرے بارے میں جانیں یا جاننے کا تجسس رکھیں..
اگر ہماری کاروباری ڈیلز ہوتی رہیں تو شاید کسی وقت ہم بھروسہ کرنے لگیں میں ریٹ پر بھی بحث نہیں کروں گا اگر مجھے ریٹ اچھا نہیں ملا تو ائندہ کسی اور کے پاس چلا جائوں گا..
بوڑھے نے کیلکولیٹر نکالا حساب کیا اور اپنے بیٹے کو مطلوبہ رقم لانے کو کہا..
کچھ دیر میں بیس لاکھ سے کچھ اوپر رقم میں نے ایک تھیلے میں ڈالی جو اس نے مجھے دیا تھا..
میں اٹھنے لگا تو بوڑھا مجھ سے مخاطب ہوا..
تم اس شہر کے نہیں ہو کسی بھی قسم کا کوئی کام ہو کچھ خریدنا یا بیچنا ہو تو ہم ڈیل بنا سکتے ہیں..
میں رک گیا..میں اس کے خیالات پڑھ چکا تھا اگرچہ وہ حیران تھا مگر کسی قسم کا دھوکا یا فراڈ اس کے ذہن میں نہیں تھا..
میں نے تھیلا کھولا اور گن کر دس لاکھ روپے اس کے حوالے کر دئے..
ایک گھر چاروں طرف سے بند محفوظ اور ایسی جگہ جہاں غیرضروری مداخلت کرنے یا اڑوس پڑوس پر نظر رکھنے والے لوگ ناں ہوں..
یہ ٹوکن ہے مکان میرے نام پر ہوگا قیمت کچھ بھی ہو چھوٹا مگر محفوظ مکان اور ساتھ ایک گاڑی اس کے لئے میں نے اسے مزید گن کر پانچ لاکھ روپے دے دئے اور اٹھ گیا..
بوڑھے کی انکھوں میں تعجب اور حیرانگی نمایاں تھی..
جوان تم نے مجھے حیران کردیا ہے یا تم بے پناہ دولت اورمظبوط قوت فیصلہ کے مالک ہو یا بالکل ناتجربہ کار ہو..
میں چہرہ شناس ہوں میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا..
کس پر کتنا اور کہاں تک بھروسہ کرنا ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں..
میرے کچھ کام ہیں میں چاہوں گا ہم دکان سے ہٹ کر ملاقات کریں..
بوڑھے نے اپنے بیٹے کو اواز دی جو پیسے دے کر دکان میں بنے پچھلے کمرے میں جاچکا تھا..
کچھ دیر میں وہ ایا تو بوڑھے نے اسے سفید گھر کی چابیاں لانے کا کہا..
چند لمحوں میں وہ چابیوں کے گچھے کے ساتھ واپس ایا..
بوڑھے نے ایک کاغذ پر ایڈریس لکھ کر میرے حوالے کر دیا..
یہ میرا ذاتی گھر ہے مجھے اسے بیچنے کی ضرورت نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے ہمارا ساتھ طویل رہے گا مجھے خوشی ہوگی اگر یہ تمھارے کام اجائے..
پیسوں کا حساب اور قیمت کا تعین ہم بعد میں کر لیں گے..
ابھی یہ بالکل خالی ہے مگر رات تک اگر تم وہاں پہنچو گے تو تمام ضروریات زندگی سے اراستہ ہوچکا ہوگا..
رات ہی کے کھانے پر وہاں ملاقات ہوگی..
میں چہرہ شناس ہوں اس لئے میں نے اپ پر بھروسہ کرلیا اپ نے کیا دیکھا میں نے مسکراتے ہوئے سوال کیا..
میرا تجربہ تمھاری عمر سے بھی بہت زیادہ ہے ہم ایک دوسرے کا نام نہیں جانتے تعارف نہیں ہے مگر جس یقین پر تم نے پندرہ لاکھ میرے سامنے بناء کسی رسید کے رکھ دئے مجھے لگتا ہے تم پربھروسہ کرنے میں مجھے نقصان نہیں ہوگا..
میں نے مسکراتے ہوئے گرمجوشی سے اس سے ہاتھ ملایا اور دکان سے باہر اگیا..
میرے پاس اب پانچ لاکھ روپے تھے مگر مجھے یقین تھا میں نے ایک سہی ادمی کو تلاش کر لیا ہے جو معاوضے کے عوض ہر کام کر سکتا ہے اور قابل بھروسہ ہے..
میں سکون سے واپس ہوٹل اگیا جہاں نالتر میرا منتظر تھا میں نے پیسوں والا تھیلا اس کی طرف بڑھا دیا اور جوتے اتار کر بستر پر دراز ہوکر بوڑھے کے خیالات پڑھنے لگا..
بوڑھے کا نام نثار تھا اور سیٹھ نثار کے نام سے سب لوگ اسے جانتے تھے..
وہ مکان کو ڈیکوریٹ کرنے اور گاڑی کے سلسلے میں اپنے بیٹے کو ہدایات دے رہا تھا..
بہت دیر تک میں اس کے خیالات پڑھتا رہا مگر مجھے ان میں کوئی کھوٹ یا دھوکہ نہیں نظر ایا..
سیٹھ نثار بے اندازہ دولت اور بے پناہ طاقت اور اختیارات کا مالک تھا..
اسلام اباد سے کراچی اور لاہور سے پشاور تک ہرجگہ اسکے مظبوط تعلقات تھے اور اس کی ایک کال پر اس کے کام ہوجاتے تھے..
یہ مقام اس نے برسوں کی محنت کے بعد بنایا تھا اس کی پہلی بیوی مر چکی تھی اور اس نے حال ہی میں ایک ماڈل گرل سے شادی کی تھی..
سیٹھ نثار کی عمر پچپن سال کے قریب تھی اور وہ ماڈل ابھی اکیس سال کی تھی..
اسکے بیٹے کا نام بابر تھا جو اس ماڈل گرل رینا تھا جو رشتے میں اب اس کی ماں تھی اس سے اٹھ نو سال بڑا تھا..
میں نے بابر کے خیالات بھی پڑھنا شروع کئے وہ اپنے باپ کی عیاشیوں سے نالاں تھا مگر اس کے سامنے دم مارنے کی اس کی مجال نہیں تھی..
اچانک مجھے حیرت کا جھٹکا لگا اور میں بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا..
میں نے نالتر کی طرف دیکھا وہ گہری نیند سوچکا تھا..
میں دوبارہ بستر پر لیٹ گیا اور بابر کے خیالات پڑھنے لگا..
بابر سیٹھ نثار کا اکلوتا لڑکا تھا اور اسے پیسے کی ہوس اور باپ کی تربیت نے ہر قسم کی معاشرتی و اخلاقی برائی میں ملوث کردیا تھا..
جب سہی غلط اچھے برے کی تمیز مٹ جائے اور پیسہ ہی سب کچھ ہو تو پھر اخلاقیات کہیں نہیں رہتیں..
بابر اپنے باپ کے منشیات, اسلحے اور سونے کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا..
سونے کا کاروبار اڑ تھا ان کا اصل دھندا منشیات اور اسلحے کی تجارت تھی..
بابر نے سیٹھ نثار سے ہٹ کر بھی ہاتھ پائوں پھیلائے ہوئے تھے جس کا علم اسکے باپ کو نہیں تھا..
عیاشی اسے باپ سے ورثے میں ملی تھی اور اس عیاشی کو پورا کرنے کا ایک زبردست ذریعہ شوبز انڈسٹری تھی..
بابر نے چند سال پہلے ایک ماڈلنگ اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی بنیاد رکھی تھی جہاں پیسہ سارا بابر کا تھا اور اسے چلانے والا اس کا وفادار دوست سہیل تھا یوں سہیل کو فرنٹ پر رکھ کر وہ اپنے مقاصد پورے کرتا تھا..
بات یہاں تک ہوتی تو خیر تھی بابر نے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس میں انٹرنیشنل کلائنٹس سے معاہدے کئے ہوئے تھے..
دنیا بھر میں ہر نیا سال شروع ہونے پر دیوارگیر اور ٹیبل کلینڈرز پرنٹ کئے جاتے ہیں..
ان کلینڈرز کے لئے دنیا بھر کے فوٹوگرافرز لینڈ اسکیپ, قدرتی مناظر اور مختلف کیٹگریز کی فوٹوگرافی کر کے ان تصاویر کو بیچتے ہیں وہی تصاویر ہمیں ان کلینڈرز پر نظر اتی ہیں..
انھی تصاویر کی کیٹگریز میں ایک خاص کلینڈرز کی کیٹگری بھی ہوتی ہے جو ہوس پرست اور عیاش لوگوں کے لئے بنائے جاتے ہیں..
دنیا بھر کے مختلف ممالک کی لڑکیوں کو ہائر کر کے ان کے فوٹو شوٹ کئے جاتے ہیں جو کلینڈرز کی زینت بنتے ہیں..
پاکستان جیسے ممالک میں اتنی ازادی نہیں ہے تو اس کے لئے ان ماڈلز کی تصاویر اس زاویئے سے لی جاتی ہیں کہ چہرہ ناں ائے...
ان کلینڈرز کی یہ گارنٹی ہوتی تھی کہ یہ دور دراز کے ممالک کے لئے ہوتے تھے تو ممکن نہیں ہوتا تھا پہچان لیا جانا دوسرا چہرے کی غیر موجودگی میں تو ویسے ہی کوئی مسئلہ نہیں تھا..
اسی دھندے میں ایک ایکسکلوسیو کیٹگری تھی جس میں پاکستانی لڑکیوں کی تصاویر چہرے کے ساتھ بنائی جاتی تھیں اور وہ صرف ایک کلینڈر بنایا جاتا تھا یعنی ایک لڑکی کا ایک کلینڈر جو دنیا بھر میں موجود عیاش گاہگوں کو بھیجا جاتا تھا اور اس ایک ماسٹر پیس کی قیمت لاکھوں میں وصول کی جاتی تھی وہ کلینڈر گاہگ کی ذاتی ملکیت ہوتا تھا جو وہ منہ مانگی قیمت دے کر بنواتا تھا اس لئے یہ بھی رسک فری تھا..
رینا ماضی میں ایسے ہی ایک کلینڈر شوٹ کے لئے بابر کی ایجینسی میں ائی تھی..
رینا سے سیٹھ نثار نے خفیہ شادی کی تھی مگر کچھ عرصے بعد جب وہ اسے بیوی کی حیثیت سے گھر لایا تو بابر کے لئے یہ جھٹکا سہنا مشکل ہوگیا..
اس وقت تو رینا کی التجائی نظروں کو دیکھ کر بابر خاموش رہا مگر اب وہ اسے بلیک میل کر رہا تھا..
شادی سے پہلے تو شاید رینا کے لئے مسئلہ نہ ہوتا وہ فوٹوشوٹ بھی کروا چکی تھی..
مگر اب وہ اس دلدل میں شاید مزید دھنسنا نہیں چاہتی تھی..
ہر عورت کی طرح اسکی منزل شوہر کا گھر اور پیسہ تھا جو اسے حاصل تھا مگر اسکا ماضی اسیب بن کر اس کی زندگی میں زہر گھول رہا تھا..
بابر کے خیالات پڑھ کر مجھے اس سے شدید نفرت محسوس ہونے لگی..
وہ رینا کے علاوہ بھی بے شمار لڑکیوں کو مجبور کر کے بلیک میل کرتا ایا تھا..
میں نے فی الحال اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا مگر اس کا حل سوچ لیا تھا..
رات کے کھانے پر سیٹھ نثار نے دعوت دی تھی نئے گھر میں تب تک فراغت تھی..
میں نے انکھیں بند کیں دماغ کو سات بجے اٹھانے کی ہدایات دیں اور گہری نیند میں ڈوب گیا..
Continue......
Write here your review about post.