سلطنت
قسط نمبر 43 تا 50
تحریر : ارشد احمد
Novel Sultanat
ٹھیک سات بجے میری انکھ کھل گئی میری نظر برابر بستر پر گئی نالتر پہلے سے اٹھا ہوا تھا..
میں اٹھ کر نہا دھو کر تازہ دم ہوا اور لباس بدل کر تیار ہوگیا..
میں نے انٹرکام اٹھا کر ریسیپشن پر موجود لڑکی کو کیب منگوانے کا کہا..
میرے پاس ڈھائی ڈھائی سو گرام کے سونے کے کل دس ٹکڑے تھے جس میں سے ایک سیٹھ نثار کو دے چکا تھا باقی نو ٹکڑے میں نے تھیلے میں رکھ لئے اور نالتر کو وہیں رکنے کا کہ کر میں کمرے سے باہر اگیا..
جب تک میں ریسیپشن پر پہنچا کیب اچکی تھی..
میں نے ڈرائیور کو سیٹھ نثار کا بتایا ہوا پتہ دیا اور کچھ ہی دیر بعد ہم کشمیر ہائی وے سے پر پی ایس او پمپ کے سامنے روڈ سے اندر داخل ہوکر جی-تیرہ سیکٹر میں ایک سفید رنگ کے خوبصورت گھر کے سامنے پہنچ گئے..
یہ پانچ سو گز کا گھر تھا جس کی تعمیر جدید مغربی طرز کی تھی جو مجھے بے حد پسند ائی..
میں ابھی گیٹ تک پہنچا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور چھ فٹ کا لمبا چوڑا پٹھان چوکیدار گیٹ کھول کر نمودار ہوا اور ماتھے تک ہاتھ لے جا کر سلام کیا دوسری ہاتھ میں اس نے اے کے 47 تھامی ہوئی تھی..
میں گیٹ سے اندر داخل ہوا تو وسیع کار پورچ اور سر سبز لان سے پرے سیٹھ نثار مجھے اگے بڑھتا نظر ایا..
میں قریب پہنچا تو اس نے نہایت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا..
میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوکر کمرے میں پہنچا جو ڈرائنگ روم تھا کمرے میں اے سی کی ہلکی سی ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی..
خوبصورت اور لگزری صوفے, پردے, سپینش ٹائلز اور لکڑی کا خوبصورت کام..
جہاں تک نظر جارہی تھی یہ گھر خوبصورتی کا شاہکار تھا..
ہم صوفوں کی طرف بڑھے اور امنے سامنے بیٹھ گئے..
یہ چھ بیڈ رومز پر مشتمل گھر ہے اور سرونٹ کوارٹر الگ ہے اسکے علاوہ..
سیٹھ نثار مجھے گھر کے بارے میں بتا رہا تھا میں نے اس کی بات کاٹ دی..مجھے اس کی قیمت بتائیں مجھے یہ پسند ایا ہے..
مارکیٹ ویلیو پانچ کروڑ سے زیادہ ہے تمھارا جو دل چاہے دے دو سیٹھ نثار نے مسکراتے ہوئے کہا..
میں نے تھیلا اس کی طرف بڑھا دیاجو ریٹ اپ نے صبح لگایا تھا اس حساب سے یہ ایک کروڑ نوے لاکھ کا سونا ہے دس لاکھ ایڈوانس دے چکا باقی بیلنس کر لیں اگلے چکر میں مل جائیں گے میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
سیٹھ نثار میرے ہاتھ میں موجود تھیلا تھام چکا تھا اور کھول کر سونے کے ٹکڑوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا..
میں جانتا ہوں تمھیں تجسس پسند نہیں ناں ہی سوال کرنا مگر میں نے زندگی میں کبھی اس طرح کی سودے بازی نہیں کی سیٹھ نثار کی اواز اور انکھوں میں حیرانگی اور تعجب نمایاں تھا..
میں اسے کیا بتاتا میرے پاس پانچ سونے کے سکوں سے بھرے صندوق ہیں اور یہ ایک صندوق میں موجود سکوں کا ہزارواں حصہ ہے..
کوئی بات نہیں میرے ساتھ چلیں گے تو اپ عادی ہوجائیں گے..
اپنا تعارف نہیں کروائو گے جوان..
میرا نام علی ہے اور یہاں سے بہت دور پہاڑوں میں اباد ایک وحشی قبیلے کا سردار ہوں..
میری بات سن کر سیٹھ نثار کی انکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں..
تم تو پڑھے لکھے اور مہذب..
ہاں میری زندگی شہر میں گزری ہے میں نے سیٹھ نثار کی بات کاٹ دی..
میرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے مگر میرے بزرگوں نے وراثت میں کچھ سونا چھوڑا ہے میں چاہتا ہوں قبیلے کے حالات بہتر کروں اور قبیلے کو جدید طرز پر استوار کروں..
یہ دنیا پیسے کی ہے اگر پیسہ ہے تو پہاڑوں کو بھی جنت بنایا جا سکتا ہے..
یہی تو مسئلہ ہے سیٹھ..
میرا قبیلہ گلگلت سے بھی اگے پانچ دن کی مسافت پر اباد ہے جہاں میلوں دور تک نہ کوئی ابادی ہے ناں لوگ سوائے ہر طرف پھیلی ہوئی برف کے..
ہم لوگ غارں میں رہنے والے لوگ ہیں مگر اب میں چاہتا ہوں کہ باقاعدہ گھر بنا کر قبیلے کو اباد کیا جائے..
اتنی دور تک مشینری اور تعمیراتی سامان لے کر جانا پھر برف ہٹا کر پتھریلی زمین برابر کرنا پھر اس پر قبیلے والوں کے لئے گھر بنانا اور اباد کرنا یہ سب اسان نہیں ہے نہ بجلی ناں گیس ناں پانی کا کوئی انتظام مطلب ایک ناممکن کام کو سر انجام دینے نکلا ہوں..
سیٹھ نثار پوری توجہ سے میری بات سن رہا تھا میری بات ختم ہونے کے بعد وہ پرخیال نظروں سے مجھے دیکھنے لگا..
ایک اور مسئلہ یہ ہے میں یہ نہیں چاہتا کہ قبیلہ اباد ہونے تک گورنمینٹ کا کوئی مسئلہ اٹھے اس لئے یہ کام حتی الامکان سکون اور خاموشی سے کرنا ہے..
اباد ہونے کے بعد جو مسائل ائیں گے میں ان سے نمٹ لوں گا..
یہ سب ناممکن تو نہیں ہے اگر پیسہ موجود ہو تو سب کچھ کیا جاسکتا ہے ہاں مگر بے حد مشکل ضرور ہے اور خاص طور پر یہ سب مزید مشکل ہوجائے گا جب خاموشی اور سکون سے یہ سارے کام سرانجام دینے کی شرط بھی ہو سیٹھ نثار نے پرخیال نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا..
میں کسی بھی قسم کے مسائل میں الجھنا نہیں چاہتا بس اس لئے خاموشی سے یہ سب کرنا چاہتا ہوں جب تک قبیلہ اباد ناں ہوجائے..
میرے ایک دوست کی تعمیراتی فرم ہے جو لوکل کے ساتھ انٹرنیشنل لیول پر کام کرتی ہے..
اصل مسئلہ مشینری اور تعمیراتی سامان وہاں تک پہنچانا ہے اگر وہاں تک پہلے سڑک تعمیر کردی جائے سیٹھ نثار نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا..
سڑک کے لئے اول تو پھر وہی گورنمینٹ کے چکر دوسرا اتنی طویل سڑک مہینوں سالوں کا کام پھر میں نہیں چاہتا کہ وہاں تک اسانی سے کوئی پہنچے اس لئے یہ کام سڑک کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا میں نے جواب دیا..
سیٹھ نثار نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک زوردار اواز کے ساتھ دروازہ کھلا...
میں نے پلٹ کر دیکھا بابر پسٹل تھامے ہوئے کمرے میں داخل ہوا تھا اس نے پسٹل کا رخ سیٹھ نثار کی طرف کیا اور کمرہ فائرنگ کے دھماکوں سے گونج اٹھا..
بابر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی جب میں نے پسٹل دیکھا تو اس کے دماغ میں پہنچ گیا..
وہ اپنے باپ کو قتل کر کے اس کے بعد مجھے قتل کرنے کے ارادے سے ایا تھا..
اس کا پلان یہ تھا کہ باپ کے قتل کا الزام مجھ پر ڈالتا اور مجھے گولی مار کر میرے ہاتھ میں پسٹل پکڑا دیتا..
یعنی ایک تو باپ سے چھٹکارہ مل جاتا اور دوسرا باپ کو قتل کرنے والے قاتل کو خود مار کر ہمدردیاں بھی سمیٹتا..
میں نے جب دن میں اس کے خیالات پڑھے تھے تو اس کے شیطانی ذہن میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا..
کب اس نے پلان بنایا اور گیٹ کے چوکیدار کو کہاں بھیجا ان سب سوالوں کے جوابات بعد میں مل سکتے تھے..
انسان جو کچھ بھی دیکھتا سنتا یا عمل کرتا ہے وہ دماغ کے تابع ہوتا ہے...
جب بابر نے پسٹل سیدھا کر کے سیٹھ نثار کا نشانہ لیا تو میں نے اسکی سوچ کو گڑبڑا دیا اور نتیجتا جہاں سیٹھ نثار بیٹھا تھا اس سے چند انچ دائیں جانب صوفے میں گولیاں پیوست ہوئیں..
میں اتنی دیر میں اٹھ کر بابر پر چھلانگ لگا چکا تھا..
میرا ہاتھ بابر کے پسٹل پر پڑا اور میں اسے رگیدتا ہوا دیوار تک لے گیا..
اسکی انگلی پسٹل کے ٹرائیگر پر تھی جو دبتی چلی گئی..
اس نے اپنے باپ پر تین فائر کئے تھے جو نشانہ چوک جانے سے خطا گئے تھے..
اس سوال کا کسی کو جواب نہیں مل سکتا تھا چند فٹ دور سے نشانہ کیسے خطا ہوگیا..
مجھ سے دھینگا مشتی میں پستول میں موجود چار گولیاں بھی فائر ہوگئیں..
پستول کا رخ زمین کی جانب تھا تو فائر زمین کی طرف ہوئے..
پسٹل خالی ہونے سے بابر جھلا گیا اور اس نے مجھے دور دھکیلنا چاہا..
میں نے اپنا سر اس کی ناک پر مارا جہاں سے خون پھوٹ پڑا اور پسٹل والا ہاتھ چھوڑ کر میں نے یکے بعد دیگرے کئی جاندار مکے اسکے پیٹ میں رسید کردئے وہ درد کی شدت سے دوہرا ہوا تو میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے ایک زوردار لات اس کے منہ پر رسید کی جس سے وہ اچھل کر زمین پر گر گیا..
وہ حکم دینے اور حکم چلانے کا عادی تھا خود جسمانی لڑائی اس کے بس کی بات نہیں تھی..
چند لمحوں کی لڑائی میں وہ زمین بوس ہوچکا تھا اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر میں نے اسے ٹھوکروں میں رکھ لیا کمرہ بابر کی چیخوں سے گونج رہا تھا..
اسی لمحے دروازہ کھلا اور چوکیدار کلاشن کوف ہاتھ میں تھامے اندر داخل ہوا..
بابر اب کراہ رہا تھا اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں تھی میں پیچھے ہٹ گیا..
سیٹھ نثار اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا مگر ساکت کھڑا اس لڑائی کو دیکھ رہا تھا..
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ بابر اسکی جان کا دشمن ہوگا..
اخرکار اسے ہوش ایا..
رسی لا کر اسکے ہاتھ پائوں باندھ دو سیٹھ نثار نے نفرت سے بابر کو دیکھتے ہوئے چوکیدار کو حکم دیا..
چوکیدار سمجھنے ناں سمجھنے کے انداز میں سر ہلاتا ہوا باہر چلا گیا..
میں چلتا ہوا سیٹھ نثار کے مقابل اکر کھڑا ہوگیا..
علی مجھے افسوس..
نہیں سیٹھ نثار میں جانتا ہوں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے اس میں..
اس نے تمھیں قتل کرنے کی کوشش کی ہے مجھے تھوڑی دیر دو یہ سب کچھ اگل دے گا..
سیٹھ نثار خاموشی سے چلتا ہوا ایک طرف بڑھا جہاں پسٹل زمین پر پڑا تھا..
پسٹل اٹھا کر وہ بابر کی طرف بڑھا اور اس کے جیبیں ٹٹول کر ایکسٹرا میگزین نکال کر پسٹل میں لگایا اور لوڈ کر کے اس کا رخ بابر کیطرف کر دیا..
پاپا مجھے معاف کردیں بابر نے گھگھیاتے ہوئے سیٹھ نثار کے پائوں پکڑنے کی کوشش کی..
میں تجھے قتل نہیں کروں گا مگر تجھے اس قابل بھی نہیں چھوڑوں گا کہ تو ائندہ سر اٹھا سکے سیٹھ نثار کا لہجہ نفرت سے بھرپور تھا..
اسی وقت چوکیدار اندر داخل ہوا اسکے ہاتھ میں رسی تھی..
کچھ ہی دیر میں بابر کے ہاتھ اور پائوں رسیوں میں بندھ چکے تھے..
سیٹھ نثار نے جیب سے رومال نکال کر بابر کے منہ میں ٹھونس دیا اور میری طرف پلٹا..
علی تم نے میری جان بچائی ہے میری زندگی قرض ہے..
میرا سگا بیٹا میرا دشمن بن گیا لالچ نے اسے اندھا کردیا ہے اج مجھے احساس ہوا کہ میں خالی ہاتھ ہوں سیٹھ کی انکھوں میں پشیمانی نظر ارہی تھی..
تم اج سے میرے بیٹے کی جگہ پر ہو مجھے خوشی ہوگی اگر تم میرا مان رکھو گے..
سیٹھ نثار اس وقت اپنی زندگی کے کمزور ترین لمحے کا سامنا کر رہا تھا..
اس کا خون اس کا دشمن ہوچکا تھا جس بیٹے کے لئے اس نے ساری زندگی گنوادی اج وہی اس کے خون کا پیاسا بن چکا تھا..
میں نے سیٹھ نثار کا ہاتھ تھام لیا مگر اس نے میرا ہاتھ چھڑوا کر مجھے گلے سے لگا لیا..
اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا..
میں کچھ دیر اسے پرسکون کرتا رہا پھر اسے صوفے پر بٹھانے کی کوشش کی..
نہیں علی میرے ساتھ چلو میرے گھر میں پہلے بابر کے مسئلے سے نپٹ لیں سیٹھ نثار مجھ سے مخاطب ہوا..
اس سے یہاں بھی نپٹا جاسکتا ہے سیٹھ..
نہیں میرے گھر میں تہ خانہ ہے میں نے سوچ لیا ہے اسے جان سے نہیں ماروں گا مگر باقی کی زندگی یہ اس تہ خانے میں گزارے گا اور وہیں یہ اپنے کرتوت بھی بتائے گا..
چوکیدار ابھی تک وہیں موجود تھا..
سیٹھ نے اسے حکم دیا کہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور باہر گاڑی کی ڈکی میں ڈال دو..
یہ چوکیدار میرا وفادار ہے اور برسوں سے میرے پاس ہے سیٹھ نے مجھے مخاطب ہوکر کہا..
چوکیدار نے بابر کی ٹانگیں پکڑیں اور گھسیٹتا ہوا باہر لے گیا میں اور سیٹھ بھی اس کے پیچھے چلتے ہوئے باہر اگئے باہر پورچ میں سیٹھ کی نئی ہنڈا سوک کھڑی تھی..
میں نے اور چوکیدار نے مل کر بابر کو ڈگی میں ٹھونس دیا اس نے مزاحمت کی کوشش کی مگر ہاتھ پائوں بندھے ہونے کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کر پایا..
چند لمحوں میں ہم اس کوٹھی سے نکل کر سیٹھ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے گاڑی سیٹھ نثار خود ڈرائیو کر رہا تھا..
کچھ ہی دیر میں ہم سیٹھ کے گھر کے سامنے پہنچ چکے تھے سیٹھ نثار نے ہارن بجایا تو اسکے گھر کا بڑا گیٹ کھل گیا اور سیٹھ گاڑی کو اندر لیتا چلا گیا..
گاڑی کے رکنے پر ہم دونوں گاڑی سے اتر ائے اسی وقت اندر کا دروازہ کھلا اور ایک حسینہ عالم اندر سے نمودار ہوئی میں اسے دیکھتا رہ گیا وہ یقینا سیٹھ کی بیوی رینا تھی..
میں رینا کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا تھا کندھوں سے نیچے تک کھلے بال, کانوں میں خوبصورت اویزے, شیفون کی ساڑھی اور مختصر بلائوز میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی..
میں نے خود کو سنبھالا میں اس وقت سیٹھ نثار کے ساتھ تھا اور جیسی بھی تھی وہ اس کی بیوی تھی..
سیٹھ نثار نے اگے بڑھ کر میرا تعارف کروایا یہ رینا ہیں میری وائف اور رینا یہ علی ہے..
رینا نے مسکرا کر مجھے سلام کیا اتنی دیر میں سیٹھ نے گیٹ پر سے چوکیداروں کو اواز دی اور ڈگی کی چابی نکل کر ایک چوکیدار کی طرف بڑھائی..
ڈگی کھولتے ہی چوکیدار کی انکھیں حیرت سے ہھٹنے لگیں مگر مالک کے سامنے سوال کرنے کی اسکی جرات نہیں تھی..
اسے باہر نکالو اور گھسیٹتے ہوئے تہ خانے میں لے جائو سیٹھ نثار نے دوسرا حکم جاری کیا..
رینا حیرانگی سے دیکھ رہی تھی کہ ڈگی میں کون ہے جیسے ہی چوکیداروں نے بابر کو باہر نکالا رینا کی انکھوں میں خوف اور حیرت جیسے منجمد ہوگئی ہو اس نے سوالیہ نظروں سے سیٹھ کی طرف دیکھا..
اس نے میری جان لینے کی کوشش کی اور مجھ پر گولیاں برسائیں اج علی کی وجہ سے میں زندہ ہوں..
تم چلو اندر میں پہلے اس سے نپٹ لوں..
مگر اپ..رینا نے کچھ کہنا چاہا..
سیٹھ نثار نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کردیا..
تم اندر جائو تم سے بعد میں بات کرتا ہوں..
کچھ دیر میں ہی بابر سیٹھ کے تہ خانے میں منتقل ہوچکا تھا..
یہ ایک وسیع و عریض گودام تھا جس میں زمین سے چھت تک لکڑی کی پیٹیاں چنی ہوئی تھیں..
ان پیٹیوں کے درمیان سے گزر کر ہم اگے بڑھے تو ہال نما وسیع جگہ تھی..
چوکیداروں نے بابر کو ایک کونے میں لٹا دیا ہاتھ پائوں بندھے ہونے کی وجہ سے وہ اٹھنے سے قاصر تھا..
اگر اپ مجھے اجازت دیں تو میں تشدد کے بغیر اس کی زبان کھلوا سکتا ہوں میں نے سیٹھ نثار سے مخاطب ہوکر کہا..
چوکیدار واپس باہر جاچکے تھے اور بابر سے کافی دور کھڑے تھے اور اس تک ہماری اواز پہنچنے کا کوئی چانس نہیں تھا..
کیسے...سیٹھ نثار نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا..
گھر میں نیند کی گولیاں ہیں میں نے سوال کیا...
ہاں میں استعمال کرتا ہوں سیٹھ نے جواب دیا..
منگوا لیں یہاں..
سیٹھ نثار نے ایک طرف دیوار پر لگا انٹرکام کا رسیور اٹھایا اور کوئی نمبربتایا چند لمحوں بعد اس کا کسی سے رابطہ ہوا شاید رینا سے اس نے چوکیدار کے ہاتھوں نیند کی گولیاں اور پانی تہ خانے میں بھجوانے کا کہا..
ہم دونوں کچھ دور موجود کرسیوں پر جاکر بیٹھ گئے..
کچھ دیر میں پانی کی بوتل گلاس اور گولیوں کی شیشی کے ساتھ چوکیدار نمودار ہوا..
میں نے بابر کی طرف سے رخ پھیر کر تین گولیاں نکال کر گلاس میں ڈالیں اور گلاس پانی سے پونا بھر دیا گولیاں حل ہونے میں دو تین منٹ لگ گئے..
سیٹھ نثار حیرانگی سے مجھے یہ سب کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا..
میں نے وہ گلاس چوکیدار کی طرف بڑھایا یہ جاکر بابر کو پلا دو..
چوکیدار نے بابر کو سہارا دے کر اٹھایا اسے شاید پیاس لگی ہوئی تھی چوکیدار نے جیسے ہی اس کے منہ سے رومال نکال کر گلاس اس کے ہونٹوں سے لگایا اس نے ایک سانس میں اسے خالی کر دیا..
تم کیا کرنا چاہ رہے ہو سیٹھ نثار نے اخر پوچھ ہی لیا..
چند منٹ انتظار کر لیں اپ کو سب سوالوں کے جواب مل جائیں گے میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
پندرہ منٹ بعد میں نے چوکیدار کو بابر کے ہاتھ پائوں کھولنے کا حکم دیا اور اسے سیدھا لٹانے کا کہا..
اسکے بعد میں نے سیٹھ نثار کو وہیں بیٹھنے کا کہا اور اٹھ کر بابر کے پاس اگیا..
بابر کے ہاتھ پائوں کھل چکے تھے وہ نیند سے نڈھال ہورہا تھا اور بمشکل انکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کر رہا تھا میں نے چوکیدار کو جانے کا اشارہ کیا..
میں نے بابر کو ٹرانس میں لینا شروع کردیا اگر مزید دیر ہوتی تو وہ گہری نیند میں ڈوب جاتا..
میں نے اسے معمول بننے کی ہدایات دیں جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میرے ٹرانس میں اچکا ہے تو میں نے اسے اخری ہدایات دیں..
تم میری انکھوں میں دیکھتے رہو اسکے سوا ہر چیز بھول جائو..
میں جو سوال کروں گا تم اس کا درست جواب دو گے..
ہاں میں جواب دوں گا بابر کی غنودگی میں ڈوبی اواز سنائی دی..
میں نے سیٹھ نثار کو پاس انے کا اشارہ کیا اور بابر سے سوال جواب شروع کر دئے..
تم نے اپنے باپ کو قتل کرنے کی کوشش کیوں کی..
میرا باپ ساری دولت پر قابض ہے سارا کام میں سنبھالتا ہوں میں دولت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا..
کیا تم اپنے باپ کے بزنس میں پیسوں کے لین دین میں ہیر پھیر بھی کرتے ہو..
ہاں..
تم اپنے باپ کے کاموں سے ہٹ کر بھی کوئی بزنس چلا رہے ہو..
ہاں میری ماڈلنگ اور ایڈورٹائزنگ ایجینسی ہے..
وہاں کیا کام ہوتا ہے..
ہم کمپنیوں کے لئے اشتہار بناتے ہیں..
اسکے علاوہ??
اور..
جواب دو بابر..
اصل میں بابر کا لاشعور مزاحمت کر رہا تھا میں اسے معمول تو بنا چکا تھا اور یہ ساری باتیں جانتا تھا صرف سیٹھ نثار کو سنوانا چاہ رہا تھا..
جب بھی وہ کچھ کہنے سے رکتا یا اس کا لاشعور مزاحمت دکھاتا میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے اس کے دماغ میں بولنے کی تحریک پیدا کردیتا تھا..
ایک ہی وقت میں ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کو استعمال کرنے کا میرا پہلا تجربہ تھا..
عالیہ باجی کو میں نے ہپناٹزم سے معمول بنایا تھا مگر وہ معمول بننے پر رضامند تھیں یہاں اس سے الٹ معاملہ تھا میں نے گولیاں کھلا کر بابر کی قوت مدافعت کو کمزور کیا تھا اور اس سے زبردستی اگلوا رہا تھا..
بابر نے میرے سوال کا جواب دینا شروع کیا..اس ایجینسی کی اڑ میں...میں کلینڈرز اور فحش فلموں کا کاروبار بھی کرتا ہوں..
تم لڑکیوں کو بلیک میل بھی کرتے ہو اور ان سے پیسہ بھی بٹورتے ہو.
ہاں..بابر نے مختصر جواب دیا..
کیا تم اپنے باپ کو صرف پیسے کے لئے قتل کرنا چاہتے تھے..
نہیں رینا نے مجھے دھمکی دی تھی کہ وہ سب کچھ پاپا کو بتا دے گی..
رینا سے تمھارا کیا تعلق ہے..
جواب دو...
رینا پاپا سے شادی سے پہلے کلینڈر شوٹ کرچکی تھی..
صرف کلینڈر شوٹ یا اور بھی کچھ..
میرے اور سہیل کے اس سے تعلقات بھی تھے..
رینا کس بات پر پاپا کو بتانے کی دھمکی دے رہی تھی..
میں اسے فلم بنانے کا کہ رہا تھا اور وہ اب مزید مجھ سے تعلقات نہیں رکھنا چاہتی تھی..
کیا پاپا سے شادی کے بعد بھی تمھارے اس اس سے تعلقات ہیں..
ہاں..بابر نے جواب دیا..
میں نے پلٹ کر سیٹھ نثار کو دیکھا جو میرے پیچھے کھڑا تھا..
اب اسکے ہاتھ میں وہی پسٹل نظر ارہا تھا جس سے بابر نے اس پر حملہ کیا تھا مگر پسٹل کا رخ اب میری طرف تھا اور سیٹھ نثار کی انکھوں میں وحشت نظر ارہی تھی..
میں چونک گیا..سیٹھ نثار نے مجھ پر پسٹل کیوں تانا ہوا تھا..
کیا بیٹے اور بیوی کے جنسی تعلقات اور دیگر معاملات کسی اور کے علم میں انے سے اسے دھچکا لگا ہے..
ہر انسان کی پرسنل اور پرائیویٹ لائف ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص ان معاملات کا کسی دوسرے کے سامنے انا پسند نہیں کرتا..
میں سیٹھ کے دماغ میں پہنچ گیا تاکہ اسے گولی چلانے سے باز رکھ سکوں..
مگر سیٹھ کی ساری توجہ بابر کی طرف تھی..
اس کے دماغ میں غصے اور جذبات کا طوفان برپا تھا..
پیسوں کی ہیر پھیر یا باقی تمام معاملات تو وہ شاید برداشت کر لیتا مگر اس کی کم عمر اور چہیتی بیوی کے ساتھ بابر کے روابط تھے یہ بات اس کی برداشت اور حوصلے سے باہر تھی..
میں اہستہ سے سامنے سے ہٹ گیا...
سیٹھ کے ہاتھ میں موجود پسٹل کا رخ سامنے بابر کی طرف رہا..
اچانک سیٹھ پلٹا اور چلتا ہوا تہ خانے سے باہر نکل گیا..
کچھ ہی دیر میں رینا کے چیخنے چلانے کی اواز سنائی دی..
سیٹھ رینا کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا تہ خانے میں لے ایا تھا..
گشتی, کنجری تجھے میں نے عزت دی گھر میں رکھا پیسے سے لے کر دنیا کا ہر سکون دیا اور تونے میرے اعتماد کو دھوکا دیا..
معاف کردیں مجھے میں مجبور تھی رینا روتی بلکتی رہی مگر سیٹھ نثار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا..
اس نے رینا کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی..
گندی نالی میں پلنے والے غلیظ کیڑے مکوڑوں کو ان کی اوقات میں رکھنا چاہئے..
اچھا ہوا میں نے تجھ سے شادی نہیں کی تو شادی تو کیا رکھیل بن کر رہنے کے قابل بھی نہیں ہے..
یہ میرے لئے شاکنگ خبر تھی کہ سیٹھ نے رینا سے شادی نہیں کی تھی صرف لوگوں کے سامنے اسے بیوی ظاہر کر رہا تھا..
علی..سیٹھ نثار میری طرف پلٹ گیا..
اس بیغیرت کو ہوش میں لائو..
بابر میرا معمول تھا اس لئے وہ بے حس و حرکت پڑا تھا..
میں نے بابر کو تنویمی نیند سے باہر انے کا حکم دیا..
اصولی طور پر اسے کچھ دیر سونے کا حکم دینا چاہئے تھا تاکہ اس کے دماغ پر برا اثر ناں پڑے..
مگر اس وقت سیٹھ نثار کو کچھ کہنا یا سمجھانا بے سود ہوتا..
بابر انکھیں پٹپٹاتے ہوئے ہوش میں ایا کچھ دیر وہ ارد گرد کے ماحول اور معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اس کے بعد جب اسے سب یاد ایا تو وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا..
جو باتیں اس نے معمول کی حیثیت سے بتائیں تھیں اگر میں انھیں بھول جانے کا حکم دیتا تو وہ سب بھول جاتا کہ اس نے کیا کچھ بتایا ہے..
مگر میں نے اسے ایسا کوئی حکم نہیں دیا تھا نتیجتا اس کو سب یاد تھا..
ایک تو اس کی غلیظ زندگی کی باتیں دوسری طرف رینا کی حالت اسے سب کچھ بتا رہی تھی اور اس کی انکھوں میں خوف نظر ارہا تھا..
اس نے باپ کی منت سماجت کرنے کی کوشش کی..
مگر کچھ دیر پہلے بابر اس کی جان لینے کی کوشش کر چکا تھا اس کی چہیتی بیوی کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اور اسے فلم کے لئے بلیک میل کر رہا تھا یہ سب باتیں مل کر طوفان بن چکی تھیں..
سیٹھ نثار نے پسٹل کا رخ بابر کی طرف کیا ہوا تھا اور اسے لعن طعن کر رہا تھا..
جب بابر نے دیکھا اب بچنے کی کوئی صورت نہیں تو اس نے اخری کوشش کے طور پر جھپٹا مار کر باپ کے ہاتھ سے پستول چھیننے کی کوشش کی مگر سیٹھ اس سے دور تھا اور اس کی انگلی ٹرائیگر پر تھی..
بابر کو اپنی جگہ سے اٹھ کر سیٹھ پر جھپٹنے میں دو تین لمحے لگتے مگر سیٹھ کو پسٹل کا ٹرائیگر دبانے میں لمحے کا ہزارواں حصہ درکار تھا..
بابر کی اس حرکت نے وہ بند توڑ دیا جو باپ اور بیٹے کے رشتے میں مزاحمت تھا..
بابر جیسا بھی تھا بحرحال سیٹھ کا بیٹا تھا جسے اس نے پال پوس کر جوان کیا تھا..
پہلی گولی بابر کے شانے میں پیوست ہوئی اسے جھٹکا سا لگا مگر وہ رکا نہیں..
سیٹھ کا دماغ قابو سے باہر ہوچکا تھا اس نے پستول کی ساری گولیاں بابر کے سینے میں اتار دیں..
بابر لہو لہان زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا اور اسکے حلق سے کراہیں اور خرخراہٹ کی اوازیں نکل رہی تھیں..
اسی لمحے سیٹھ نثار زمین پر گرتا چلاگیا میں اسکے دماغ میں پہنچا اس کا نروس بریک ڈائون ہوگیا تھا اور دماغ اندھیروں میں ڈوب رہا تھا..
رینا اٹھ کر دوڑتی ہوئی ائی اور سیٹھ نثار کو سنبھالنے لگی...
اس نے سیٹھ نثار کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا..
سیٹھ نثار ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکا تھا..
کچھ دیر میں رینا اور میں مل کر سیٹھ نثار کو تہ خانے سے باہر لاچکے تھے اور وہاں سے چوکیداروں کی مدد سے اسے بیڈروم منتقل کردیا تھا..
تہ خانے میں بابر کی لاش پڑی تھی چوکیداروں کو اندر بلانا مناسب نہیں تھا اس لئے میں اور رینا سیٹھ نثار کو تہ خانے سے باہر تک لائے تھے اور تہ خانہ لاک کردیا تھا..
رینا ڈاکٹر کو فون کر چکی تھی کچھ دیر میں ڈاکٹر اگیا اس نے انجیکشن وغیرہ لگائے اور اعصاب کو پرسکون کرنے اور نیند والی دوائیں دے دیں کہ جب ہوش میں ائے تو استعمال کروانی ہیں..
ہم دونوں ڈرائنگ روم میں صوفوں پر امنے سامنے بیٹھ گئے..
رینا اپنے اپ کو سنبھال چکی تھی مگر خوف اور وحشت اسکی انکھوں سے نمایاں تھے..
رینا...سیٹھ نثار تمھارے کلینڈر شوٹ, سہیل اور بابر وغیرہ سے تمھارے تعلقات اور دیگر تمام باتیں جان چکا ہے..
میں نہیں جانتا ہوش میں انے کے بعد سیٹھ کا ری ایکشن کیا ہوگا مگر جو بھی ہوگا اچھا نہیں ہوگا..
میں مجبور تھی بابر..
نہیں تم اتنی سیدھی نہیں ہو رینا میں سیٹھ نثار کے حوالے سے مروت دکھا رہا ہوں بس میں تمھارے ماضی اور حال کی ہر بات جانتا ہوں میں نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا..
میری باتیں سن کر رینا کی حالت اور بری ہوچکی تھی..
تم کیسے جانتے ہو یہ سب باتیں اور تمھارا سیٹھ نثار سے کیا تعلق ہے رینا نے سوال کیا..
میرا بزنس اور دوستی کا تعلق ہے سیٹھ سے اور تمھارے بارے میں کیسے جانتا ہوں سب یہ میرا راز ہے جو میں نہیں بتانا چاہتا اور جو بات میں ناں بتانا چاہوں دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے نہیں پوچھ سکتی..
رینا میری انکھوں میں دیکھ کر خاموش ہوگئی..
مجھے بتائو اب تم کیا چاہتی ہو میں نے رینا سے پوچھا.
میں نے کیا چاہنا ہے دنیا میں اکیلی ہوں باپ بچپن میں مر گیا جوان ہوئی تو ماں گھر سے بھاگ گئی اور مجھے دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا..
دارالامان میں دو سال گزارے..
وہیں ایک بڈھے پولیس افسر سے دوستی کی اس نے دارالامان سے جان چھڑوائی اور ایک کرائے پر گھر لے کر دے دیا اور مہینے کے بیس ہزار دینے لگا..
اس کے ساتھ ایک سال گزارا مگر ایک ایکسیڈینٹ میں وہ بڈھا مر گیا اور میں پھر بھٹکنے پر مجبور ہوگئی..
انہی دنوں بابر کی ایجینسی نے ماڈلز کا اشتہار دیا اور میں قسمت ازمانے پہنچ گئی..
سہیل کے ذریعے میں دو چار بڑے لوگوں سے متعارف ہوئی اور اخرکار سیٹھ نثار سے ٹکرائی..
تب تک بابر کا مجھ سے دل بھر چکا تھا اوپر سے اسے ماڈلنگ ایجینسی کی وجہ سے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی تو اس کا دھیان مجھ پر سے ہٹ گیا تھا..
میں نہیں جانتی تھی بابر سیٹھ نثار کا بیٹا ہے جب میں اس گھر میں ائی تو بابر سے سامنا ہوا..
یہاں اس کی عیاش فطرت عود کر ائی اور وہ مجھے ماضی کے حوالوں سے بلیک میل کرنے لگا..
اچھا ہوا وہ شیطان اپنے انجام کو پہنچ گیا رینا کے لہجے میں بابر کے لئے نفرت عیاں تھی..
رینا بیک وقت ظالم بھی تھی اور مظلوم بھی..گناہ گار بھی تھی اور معصوم بھی..
مجھے سمجھ نہیں ارہا تھا اس کا کیا ہوگا..
مجھے یقین تھا سیٹھ نثار مشکل سے ہی اسے معاف کرے..
اٹھو یہاں سے اور بابر کے کمرے میں چلو میں نے اخر ایک نتیجے پر پہنچتے ہوئے رینا سے کہا...
اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا مگر میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا..
کچھ دیر بعد ہم بابر کے کمرے میں تھے میں رینا کو کیا بتاتا کہ میں بابر کے دماغ سے ساری خفیہ معلومات لے چکا ہوں..
دیوار پر مائیکل جیکسن کی ایک قد ادم تصویر لگی تھی..
میں نے تصویر ہٹا کر اسکے پیچھے نمبروں والی دیوارگیر تجوری کو کھولا جس کے نمبر میں بابر کے دماغ سے پہلے ہی معلوم کر چکا تھا..
تجوری کرنسی کی گڈیوں, سونے کے بسکٹوں, لڑکیوں کی تصاویر, وڈیوز وغیرہ سے بھری ہوئی تھی..
رینا اور میں ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے..
میں نے تجوری سے ساری تصاویر اور وڈیوز نکال لیں اور رینا کی طرف بڑھا دیں جس کے چہرے پر ا سکون تھا..
انھیں ابھی کچن میں جا کر جلا دو اور کوئی بڑا بیگ لے کر ائو..
رینا نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا..
جائو جو کہ رہا ہوں وہ کرو یہ کئی لڑکیوں کی تصاویر ہیں جانے کن مجبوریوں میں بلیک میل ہورہی ہونگی اب بابر نہیں رہا تو اس بلیک میلنگ کے مواد کو جلا دو..
رینا تصاویر کا بنڈل اٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گئی..
میں کمرے میں نظر دوڑائی تو مجھے کپڑوں کی الماری نظر ائی میں نے اسے کھولا تو مجھے اس میں ایک بڑا کپڑوں کا بیگ نظر ایا..
میں نے نوٹوں کی گڈیاں اس بیگ میں ڈالنی شروع کردیں یہ غیر ملکی اور لوکل کرنسی تھی میں نے گڈیوں کی مالیت کا اندازہ لگایا یہ کروڑوں روپے تھے اور سونے کے بسکٹوں کی مالیت بھی لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی..
کچھ دیر میں بیگ نوٹوں اور سونے کے بسکٹوں سے ادھے سے زیادہ بھر چکا تھا..
میں وہیں بیڈ پر دراز ہوگیا اور رینا سے دماغی رابطہ کیا..
وہ ایمانداری سے کچن میں ساری تصاویر اور وڈیوز جلا رہی تھی اور میرے بارے میں ہی سوچ رہی تھی..
میں کافی دیر اس کے خیالات پڑھتا رہا مگر مجھے کسی قسم کا دھوکا یا فریب نظر نہیں ایا..
اس کے بعد میں نے نالتر سے دماغی رابطہ کیا..
نالتر سے میں پہلی بار رابطہ کر رہا تھا اسے یقین دلانا مشکل ہوتا..
نالتر میں تم سے بات کر رہا ہوں علی تمھارا سردار میرا لہجہ اس کے دماغ میں گونجا تو وہ ہڑبڑا گیا..
سردار کی اواز میرے سر میں سے کیوں ارہی ہے نالتر پریشان ہوکر سوچنے لگا..
مجھے ہنسی اگئی..
نالتر میں تم سے رابطہ کر رہا ہوں سمجھا نہیں سکتا فی الحال واپس اکر سمجھائوں گا جو کہ رہا ہوں غور سے اسے سنو بس..
میں نے نالتر کو ہدایات دے کر اس سے دماغی رابطہ ختم کردیا..
میں جانتا تھا اسے یقین نہیں ائے گا مگر جو میں نے بولا ہے وہ سب ہوتا ہوا دیکھے گا تو اعتراض نہیں کرے گا..
میں نے سیٹھ نثار کے دماغ میں جھانکا اس کے دماغ میں سناٹا چھایا ہوا تھا وہ نیند میں نہیں تھا شاید اب تک بیہوشی کی کیفیت اس پر طاری تھی..
کچھ دیر میں رینا کمرے میں واپس اگئی..
سنو رینا..اپنا سب سامان, کپڑے, ہر چیز اور یہ بیگ اٹھائو اور اسلام اباد ہوٹل کے کمرہ نمبر 104 میں چلی جائو وہاں نالتر نام کا میرا محافظ ہوگا وہیں رک کر میرا انتظار کرو..
مگر سیٹھ نثار..رینا نے کچھ کہنا چاہا..
اسے مجھ پر چھوڑ دو یا تو مجھ پر بھروسہ کر لو یا پھر اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر لو اور انتظار کرو سیٹھ نثار کے ہوش میں انے کا..
تمھیں پیسہ, اسائشات اور سر چھپانے کا اسرا چاہئے وہ میں دے رہا ہوں فورا فیصلہ کرو اس سے پہلے کہ سیٹھ ہوش میں ائے..
اتنا سامان میں کیسے لے جائوں گی رینا کے چہرے پر الجھن تھی..
اس کی بات درست تھی کپڑے اور باقی سامان کی اسے ضرورت نہیں تھی مگر میرے ذہن میں جو پلاننگ تھی اس کے مطابق اس کا کوئی سامان یا سراغ یہاں پر موجود نہیں ہونا چاہئے تھا..
اچھا تم سارا سامان سمیٹو اور یہیں رکو میں ایک گھنٹے میں اتا ہوں..
ڈاکٹر کہ کر گیا ہے سیٹھ صبح تک گہری نیند سوتا رہے گا اس لئے تم سکون سے سارا سامان سمیٹو کوئی چیز تمھاری یہاں باقی ناں رہے میں گاڑی کا انتظام کر کے اتا ہوں..
رینا کی انکھوں میں الجھن کے تاثرات تھے مگر اس نے میری کسی بات کا انکار نہیں کیا..
میں نے فون اٹھایا اور ہوٹل کو سیٹھ کے ایڈریس پر کیب بھجوانے کا کہا..
رینا جاچکی تھی میں اٹھ کر باہر پورچ میں اگیا..
کچھ دیر میں کیب اگئی اور میں کیب میں بیٹھ کر ہوٹل اگیا..
وہاں پہنچ کر نالتر کو سمجھانا عذاب ہوگیا کہ میں نے اس سے سوچ کے ذریعے گفتگو کی تھی بہت مشکل سے اسے یہ سب کر کے سمجھا پایا اسکے بعد میں نے اور نالتر نے چیک ائوٹ کیا..
باہر اکر میں نے کیب والے سے پک اپ منگوانے کا کہا اس نے کچھ جگہوں پر کالیں کیں اور اخرکار ایک جگہ سے پک اپ کا انتظام ہوگیا..
کچھ دیر میں پک اپ اگئی میں اور نالتر کیب میں بیٹھ کر سیٹھ نثار کے گھر اگئے پک اپ ہمارے ساتھ تھی...کیب والے کو میں نے انتظار کرنے کا کہ دیا..
گیٹ کھلوا کر میں پک اپ گیٹ سے اندر لے ایا رینا باہر اچکی تھی اس کی موجودگی میں چوکیدار نے کوئی اعتراض نہیں کیا..
رینا نےلباس بدل لیا تھا...
میں نے نالتر کی مدد سے رینا کے سامان والے بیگ اور بریف کیس پک اپ میں لوڈ کروائے اور پک اپ والے کو سفید گھر والا ایڈریس دے کر سامان وہاں پہنچانے کا کہا..
نالتر کو میں نے کہ دیا تھا کہ اس گھر میں سامان اتروا کر وہیں ہمارا انتظار کرے اور رینا کے ساتھ واپس ڈرائنگ روم میں اگیا..
ہم دونوں صوفوں پر امنے سامنے بیٹھ گئے..
تم یہ سب میرے لئے کیوں کر رہے ہو اور تم نے اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا میں انکھیں بند کر کے تم پر بھروسہ کر رہی ہوں مگر پھر بھی دماغ میں بہت سے سوالات ہیں رینا کے لہجے میں الجھن تھی..
کیا تم نہیں چاہتیں زندگی میں سکون اور اسائشات??
چاہتی ہوں مگر..
بس پھر بھروسہ رکھو تم جو چاہتی ہو تمھیں مل جائے گا..
میں پہاڑوں میں اباد ایک وحشی قبیلے کا سردار ہوں..
کوئی وقت تھا میرے لئے پیسوں کی اہمیت تھی مگر اج پیسہ میرے ہاتھوں کا میل ہے..
بابر کی تجوری سے کروڑوں روپے کی کرنسی اور سونا نکلا ہے..
تم لے جانا چاہو تو جا سکتی ہو میری طرف سے کوئی پابندی نہیں مگر سیٹھ نثار جیسے لوگ ہاتھ ائی لڑکی کو اسانی سے نہیں چھوڑتے میرے ساتھ تم محفوظ رہوگی یہ سب کیسے ہوگا یہ تم مجھ پر چھوڑ دو انکھیں بند کر کے بھروسہ کیا ہے تو ہر چیز بھول جائو وقت انے پر سب کچھ جان جائو گی..
فی الحال ہمیں موجودہ مسائل سے نمٹنا ہے باہر کیب موجود ہے اسے میں نے ایڈریس سمجھا دیا ہے تم بابر والا بیگ لے کر اس ایڈریس پر چلی جائو اور نالتر کے ساتھ وہیں میرا انتظار کرنا..
وہ میرا گھر ہے وہاں میری اجازت کے بناء کوئی نہیں اسکتا اور نالتر کے ساتھ تم محفوظ رہوگی..
وہ گھر میں نے اج ہی لیا ہے کسی کمرے کو اپنے لئے سیٹ کرلو اور کھانا پکانے سے لے کر گھر کی باقی ساری ذمہ داریاں سنبھال لو اور اب جائو..
سیٹھ نثار کے ساتھ میرے کچھ بزنس معاملات ہیں پھر تمھارا معاملہ نپٹانا ہے اس لئے میں یہیں رکوں گا..
بلکہ ایک کام کرو رکو..
میں بابر والا بیگ اٹھا لایا سیٹھ نثار کو میں دو کروڑ کا سونا دے چکا تھا اور باقی تین کروڑ اس کے میری طرف تھے..
میں نے بیگ سے گن کر تین کروڑ کے مساوی ڈالرز کی گڈیاں نکال کر پاس رکھ لیں اور بیگ رینا کے حوالے کر کے اسے کیب میں رخصت کردیا..
رینا کے باہر جاتے وقت میں نے چوکیدار کو غائب دماغ بنا دیا تاکہ وہ اسے جاتا ناں دیکھ سکے..
اس کےبعد میں نے نالتر سے دماغی رابطہ کر کے اسے بتادیا کہ رینا ارہی ہے ساتھ وقتا فوقتا رینا کے دماغ میں بھی جاتا رہا جب وہ میرے نئے گھر پہنچ گئی تو میں نے اس سے دماغی رابطہ ختم کردیا..
میں ڈرائنگ روم سے اٹھ کر سیٹھ نثار کے بیڈ روم میں اگیا اور اس سے دماغی رابطہ قائم کیا..
سیٹھ نثار ہوش میں اچکا تھا مگر گہری نیند میں تھا..
قصہ مختصر میں نے سیٹھ کے مکمل ہوش میں انے کا انتظار کیا وہ سکون اور اور نیند اور دوائیوں کے زیر اثر تھا ہوش میں انے کے بعد وہ اسانی سے میرا معمول بن گیا..
میں نے اسکے دماغ سے رینا سے متعلق ہر سوچ ہر یادداشت مٹادی اور اسے ہمیشہ کے لئے رینا کو بھول جانے کا حکم دیا..
اب رینا اس کے سامنے بھی اجاتی تو وہ اسے ناں پہچانتا..
تنویمی عمل کرنے کے بعد میں نے اسے ادھے گھنٹے کی تنویمی نیند کرنے کا حکم دیا..
میں پوری رات جاگتا رہا تھا اور اب واپس جاکر نیند پوری کرنا چاہ رہا تھا..
ادھے گھنٹے بعد سیٹھ نثار ہوش میں اگیا میں نے تین کروڑ اس کے حوالے کئے اور بابر کی لاش غائب کرنے کا کہ کر اس سے چند گھنٹوں کی اجازت لے کر اسکی گاڑی میں اپنے گھر واپس اگیا..
سیٹھ نثار کا چوکیدار پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا..
باہر کا دروازہ نالتر نے کھولا تھا..
میں گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے باہر نکلا تو رینا بھی باہر اگئی..
رینا اب ایک گھریلو شلوار قمیض میں تھی..
میں نے نالتر کو ارام کرنے کا کہا وہ ایک کمرے کیطرف بڑھ گیا..
نالتر میں سب سے بڑی خوبی ہی یہ تھی کہ وہ بس حکم بجالاتا تھا کوئی سوال کوئی بحث یا ایسا کچھ اس کے مزاج میں تھا ہی نہیں..
علی تمھاری انکھیں سرخ ہورہی ہیں تم سوئے نہیں ہو ارام کر لو پلیز مگر پہلے کچھ کھا لو میں ناشتہ بنا دوں..
ہاں میں ارام کرنے ہی ایا ہوں ناشتہ ابھی کرنے کا موڈ نہیں اٹھوں گا تو کھانا کھائوں گا فی الحال یہاں کچھ موجود نہیں تم نالتر کے ساتھ جاکر سامان لے انا جو ضرورت ہو میں رینا سے کہتا ہوا اندر کی طرف بڑھا رینا میرے ساتھ ساتھ تھی..
میں نے اس گھر کو اب تک پورا دیکھا بھی نہیں ہے میں نے مسکراتے ہوئے رینا سے کہا..
تم بہت عجیب ہو علی..
میں نے یہ والا بیڈ روم اپنے لئے سیٹ کیا ہے اور یہ برابر والا تمھارا ہے اس سے اگے نالتر کا کمرہ ہے..
میں تم سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں مگر تم تھکے ہوئے ہو ارام کر لو..
میں اس بیڈ روم میں داخل ہوچکا تھا جس کی جانب رینا نے اشارہ کیا تھا..
یہ وسیع و عریض بیڈ روم تھا جس میں دیور گیر ایل ای ڈی, اور جمبو سائز مسہری سے لے کر ہر چیز موجود تھی..
میں مسہری پر بیٹھ گیا رینا میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور میرے جوتوں کی طرف ہاتھ بڑھانے لگی..
نہیں رینا تم ناں ہی میری ملازم ہو ناں غلام تمھیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے خود کو میری دوست سمجھو...
میری جیسی گندی عورت تمھاری دوستی کے قابل ہے رینا نے میری انکھوں میں دیکھا میرا دل کٹ کر رہ گیا اسکی انکھوں میں نمی تھی..
رینا نے جھک کر میرے شوز اور موزے اتار دئے اس بار میں نے اسے نہیں روکا..
اس کے بعد رینا مسہری کے سرہانے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور میرا سر اپنی گود میں رکھ کر بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی..
مجھے اتنا سکون محسوس ہوا کہ چند ہی لمحوں میں گہری نیند میں ڈوب گیا..
میری انکھ کھلی تو میں نے حیرانگی سے دیکھا میرا سر رینا کی گود میں ہے اور وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہے..
رینا..یہ کیا یار..تم اٹھیں کیوں نہیں..میں کتنے گھنٹے سویا ہوں..
رینا کے لبوں پر مسکراہٹ اگئی میں اٹھتی تو تمھاری انکھ کھل جاتی تم پانچ گھنٹے بعد اٹھے ہو..
اف رینا..ائندہ ایسے نہیں سلانے دوں گا تمھیں یہ بہت غلط ہوا..
نہیں علی رینا نے جھک کر میرے ماتھے پر بوسہ دے دیا..
جس شخص نے بناء کسی غرض کے میرے لئے سوچا مجھے تحفظ دیا کروڑوں روپے میرے سامنے رکھ دئے اس کے لئے میری ہر سانس قربان ہے کاش میں اپنا دل تمھیں دکھا سکتی کاش تم میرے دل میں جھانک سکتے..
میری زندگی میری ہر سانس میری زندگی کے اخری لمحے تک تمھاری امانت ہے علی رینا نے جذباتی لہجے میں کہا..
میں اسے کیا بتاتا کہ میں اس کے دماغ میں جھانک کر اس کے سارے جذبات و خیالات جانتا تھا اگر یہ تبدیلی اس میں ناں ائی ہوتی تو اسے میں اپنے بیڈروم میں داخل ہونے کا حق بھی ناں دیتا..
رینا میری زندگی بہت عجیب ہے پہاڑوں پر میرا قبیلہ اباد ہے مجھے ان کے لئے بہت کچھ کرنا ہے وہاں میری بیوی ہے میرے لوگ ہیں میں اٹھ کر بیٹھ چکا تھا اور ٹانگیں زمین پت لٹکا کر مسہری پر بیٹھ گیا تھا..
رینا میرے برابر سے اٹھی اور زمین پر بیٹھ کر اپنا چہرہ میری گود میں رکھ لیا..
تمھاری بیوی تمھارے لوگ اب میرے بھی لوگ ہیں علی رینا نے اپنی زندگی تمھیں دے دی ہے تو رینا کی ہر چیز اب تمھاری ہے..
میں ساری زندگی باندی بن کر تمھاری بیوی کے قدموں میں گزار سکتی ہوں..
تم مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھو گے تو کوئی کونہ مجھے دے دینا ساری زندگی تمھارے نام پر گزار دوں گی..
عورت جس کو اپنا مان لے اس سے کبھی بے وفائی نہیں کرتی..
میں زبان سے کچھ نہیں کہنا چاہتی میرا ماضی داغداد ہے شاید تم یقین ناں کر پائو مجھ پر مگر میرا عمل اور وقت ثابت کرے گا علی کہ رینا صرف تمھاری ہے خواہ اسے ملازم بنا کر رکھو باندی بنا کر رکھو یا غلام یہ رینا کا فخر ہوگا..
میں نے ہاتھوں کے پیالے میں رینا کا چہرہ تھام لیا..
میں نے اسکے دماغ میں جھانک کر دیکھا تھا وہ دل کی گہرائی سے سب کچھ کہ رہی تھی اس کے جذبات میں خیالات میں سوچ میں کہیں کھوٹ نہیں تھا..
رینا تم بہت اچھی ہو ماضی میں جو ہوا اسے بھول جائو جو گزر گیا سو گزد گیا اج سے نئی زندگی شروع کرو تمھارے لئے خوش خبری ہے سیٹھ نثار ائندہ کبھی تمھارے سامنے بھی ایا تو تمھیں نہیں پہچان پائے گا..
اور تم ناں میری ملازم ہو ناں باندی ناں ہی غلام بلکہ ایک اچھی دوست کی حیثیت سے ہمیشہ میری زندگی کا حصہ رہو گی..
اب اٹھ جائو اور کھانا ارڈر کرو نالتر بھی بیچارہ بھوکا بیٹھا ہوگا..
نالتر کون ہے وہ ہماری زبان نہیں سمجھتا..
نالتر میرا قبیلے کا جانثار ہے اس کی زبان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا میں شاور لے لوں تب تک تم کھانا منگوا لو..
شاور لے کر گندے کپڑے پھر پہنو گے رینا نے کہا..
میرے پاس کوئی سوٹ نہیں ہے یہاں تم نالتر کے ساتھ جا کر میرے ناپ کے سوٹ اج لے انا..
رینا مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی..
میں نے پلواشہ سے دماغی رابطہ کیا وہ اسی کمرے میں بستر پر دراز تھی جو پہلے چچی جان کا تھا..
مجھ سے زیادتی ہوئی تھی میں نے اتنے دن پلٹ کر اس سے رابطہ نہیں کیا تھا وہ سخت پریشان تھی..
میری اواز سنتے ہی خوش ہونے کے بجائے انسوئوں سے رونے لگی.
اسے منانے پیار کرنے اور باتوں میں بہت دیر گزر گئی اسے اپنی مصروفیات اور مسائل کا بتایا اور اخرکار دن میں ایک دفعہ رابطہ کرنے کا وعدہ کر کے میں واش روم میں چلا گیا..
ٹھنڈے پانی سے شاور لینے سے ساری تھکاوٹ اور سستی ختم ہوگئی..
کھانا میں نے نے نالتر اور رینا نے مل کر کھایا..
میں نے نالتر کو ہدایات دیں اور رینا سے نالتر کے اور اپنے کپڑوں اور ضرورت کی ہر چیز لانے کا کہ کر سیٹھ نثار کی طرف چل پڑا..
سیٹھ نثار کے ساتھ جاکر پہلے گھر کا ٹرانسفر اپنے نام کروایا اتنی جلدی ایک دن میں یہ ناممکن تھا مگر سیٹھ نثار کے تعلقات اور پیسے نے مل کر ناممکن کو ممکن کردکھایا اور سفید گھر میرے نام منتقل ہوگیا..
اس کے بعد سیٹھ کے ساتھ میں اسکے دوست کی تعمیراتی فرم میں گیا اور اس کے مالک ہارون سے ملاقات ہوئی..
کچھ ہی دیر میں ارکیٹیکٹ, انجینئیرز اور دیگر ماہرین کی پوری ٹیم سے مشاورت شروع ہوگئی..
دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد ہم تمام معاملات فائنل کر چکے تھے ہمارے چائے پینے تک ایگریمینٹ بن کر اگیا اور میں نے معاہدے پر سائن کر کے رخصت لی..
پیمنٹ کا ٹائم اگلے دن کا رکھا گیا یہ بہت بڑا پروجیکٹ تھا..
پہلے بائونڈری وال اور حفاظتی چوکیاں اور اسکے بعد سو گھروں کی مرحلہ وار تعمیر..
ایڈوانس کے لئے بابر والا پیسہ میرے پاس موجود تھا اگلی پیمنٹ کے لئے قبیلے میں سونا موجود تھا.
میرا اندازہ تھا میرے ذہن میں موجود قبیلے کی ابادکاری اور دیگر معاملات میں زیارہ سے زیادہ خزانے کا ایک صندوق استعمال ہوتا اس کے بعد بھی اتنا سونا اور ہیرے جواہرات بچ جاتے کہ میری سو نسلیں ساری عمر بھی بیٹھ کر کھاتیں تو خزانہ ختم ناں ہوتا..
میٹنگ سے نکلے تو بھوک ستا رہی تھی مگر میں جانتا تھا رینا اور نالتر انتظار میں ہونگے میں اب تک سیٹھ نثار کی گاڑی میں تھا نالتر اور رینا اگر بازار گئے ہونگے تو انھیں کیب استعمال کرنی پڑی ہوگی گاڑی بے حد ضروری تھی..
سیٹھ نثار نے اپنے کسی دوست کو فون کیا اور کچھ دیر بعد ہم ایک شوروم میں موجود تھے..
میں نے وہاں سے سیاہ رنگ کی پراڈو پسند کی سیٹھ نثار نے پیمنٹ کا اپنا چیک اسے دے دیا اور رجسٹریشن وغیرہ میرے نام کرنے کی ہدایت دی..
کاغذی کاروائی میں ادھا گھنٹہ لگ گیا اس کے بعد میں نے سیٹھ نثار سے رخصت لی اور اپنی نئی گاڑی میں گھر کی طرف روانہ ہوگیا اور بیس منٹ بعد میں گھر کے دروازے پر تھا..
ہارن کی اواز سن کر نالتر نے دروازہ کھولا مگر یہ گاڑی اس کے لئے اجنبی تھی اس لئے وہ گیٹ سے باہر اگیا مگر مجھے دیکھ کر اس کی انکھوں میں چمک اگئی اور وہ ستائش سے گاڑی کو دیکھنے لگا..
چند لمحوں بعد گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے میں اترا تو رینا کو دیکھ کر دنگ رہ گیا...
Write here your review about post.