Pakistan ISI Hypnotist Soldier 2

Fayaz Ali
0

Pakistan Hypnotist Soldier 2

Episode: 2

تحریر : ارشد احمد


میں واپس اپنے کمرے میں اگیا اور بزرگ کی کہی باتوں کو سوچتا رہا..


کیسی انوکھی بات ہے کسی کے خیالات کو پڑھنا اور انھیں کنٹرول کرنا..


میں نے رجسٹر کھولا اور بزرگ کی نوٹ کروائی گئی باتوں کو پڑھتا رہا..


بہت دیر تک میں ان باتوں میں الجھتا رہا..

Sultnat Novel


کچھ سمجھ ایا کچھ نہیں اسکی وجہ میری عمر اور علمیت کی کمی تھی..


میں اگلے دن کا شدت سے منتظر تھا جب مجھے باقاعدہ مشق شروع کرنی تھی..


مگر میں نہیں جانتا تھا یہ تو ابتداء ہے مجھے اس دشت میں ایک طویل سفر طے کرنا ہے..


منزل کےحصول کے لئے مجھے کن کن مرحلوں سےگزرنا پڑے گا میں نہیں جانتا تھا...


اگلے دن حسب معمول رجسٹر کے ہمراہ میں پھر ان کے سامنے تھا..


رسمی سلام دعا اور حال احوال کے بعد بزرگ نے مجھے رجسٹر کھولنے کا کہا اور میں رجسٹر اور قلم ہاتھ میں لئے ہمہ تن گوش ہوگیا..


انسان کی مادی زندگی میں بے شمار صلاحیتیں کام کرتی ہیں...


یہ سب شعوری صلاحیتیں ہیں مثلاً محسوس کرنا، سننا، سونگھنا، دیکھنا، چکھنا، بولنا، چھونا، پکڑنا، چلنا، سونا اور بیدار ہونا وغیرہ...


اس ضمن میں بہت سے علوم و فنون بھی آ جاتے ہیں مثلاً مصوری، کتابت، طباعت، تکنیکی علوم، موسیقی، ادب، شعر و شاعری، تاریخ، سائنس اور دھات سازی وغیرہ...


جب کوئی شخص کسی صلاحیت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس صلاحیت سے ناواقف ہوتا ہے...


لیکن جب وہ صلاحیت سے استفادہ کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے...


تو ذوق و شوق اور استعداد کے مطابق اس کے اندر صلاحیت بیدار اور متحرک ہو جاتی ہے..


ارتکاز توجہ ذہن کو ایک مرکز پر لانے کا نام ہے...


تا کہ زیادہ سے زیادہ دیر تک توجہ ایک نقطہ پر یا ایک خیال پر قائم رہے...


ارتکاز توجہ کے ذریعے ذہن کے اندر کی بکھری ہوئی قوتیں جمع ہو کر باہر آ جاتی ہیں...


روح کے لاشمار عکس، ان گنت قوتیں اس لئے خوابیدہ رہتی ہیں کہ ارتکاز توجہ کی طاقت ماورائی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں استعمال نہیں ہوتی..


ٹیلی پیتھی, ہپناٹزم, مسمریزم کے علوم کے بارے میں تاریخ سے بے خبر لوگ یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ...


شاید یہ علوم انگریزوں کی ایجاد ہونگے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے...


کمالات انسانی دماغ میں واقع دو غدود پینل گلینڈ اور پچوٹری گلینڈ کے بیدار ہونے سے حاصل ہوجاتے ہیں...


جبکہ ہمارے اسلاف صدیوں پہلے ان رازوں سے آگاہ تھے...


جسے جدید سائنس پینل گلینڈ کہتی ہے صوفیاءاسلام نے صدیوں پہلے اسے لطیفہ خفی کے نام سے ذکر کیا ہے..


اور پچوٹری گلینڈ کو ہمارے اسلاف نے لطیفہ اخفی کے نام سے یاد کیا ہے...


ہر ایک کے لئے قوت ٹیلی پیتھی کا حصول ممکن ہے بشرطیکہ انسان میں مستقل مزاجی اور صبر کا مادہ ہو...


اتنی بڑی قوتیں ہفتوں اور مہینوں میں حاصل نہیں کی جاسکتیں اس کیلئے ایک طویل عرصے کی ریاضت کی ضرورت ہے...


ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے جو ریاضتیں کی جاتی ہیں اسے عرف عام میں یکسوئی یا ارتکاز توجہ کی مشقیں کہتے ہیں...


ارتکاز توجہ اور یکسوئی سے انسان اپنی تمام تر توجہ کو کسی ایک نکتہ پر قائم کرتا ہے...


جب توجہ کسی نکتے پر قائم ہوجاتی ہے تو انسان بے شمار خرق العادات کا حامل بن جاتا ہے...


مثلاً کشف القلوب‘ تھاٹ ریڈنگ‘ توجہ سے سلب امراض اور قوت خیال کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا..


یکسوئی کا حامل جب کسی کی طرف اپنا خیال روانہ کرتا ہے تو مطلوبہ شخص ہزاروں لاکھوں میل دور سے خیال وہم یا گمان کی صورت میں محسوس کرلیتا ہے...


لیکن ان باتوں کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان یکسوئی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہو کہ جس کام جس غرض کیلئے یکسو ہوجائے تو ایسا غرق ہوجائے کہ آس پاس کی خبر نہ رہے...


یکسوئی کی اس درجہ پر پہنچنے کیلئے ماہرین فن نے بے شمار مشقیں بیان کی ہیں...


مثلاً آئینہ بینی‘ شمع بینی‘ دائرہ بینی‘ ماہتاب بینی‘ آفتاب بینی‘ بلور بینی وغیرہ...


ان تمام کا مقصد استغراق حاصل کرنا ہے..


ان مشقوں میں کامیابی تب ہوتی ہے جب یہ مشقیں یکسوئی سے کی جائیں...


اگرچہ یہ مشقیں یکسوئی کیلئے ہی کی جاتی ہیں لیکن یکسوئی سے مشقوں کا ہونا شرط اول ہے...


اب مشق کو طریقہ کار نوٹ کرو بزرگ نے کہا..


  کل سے تم ہر روز علی الصبح اٹھنے کی عادت ڈالو گے..


ویسے تو یہ کھلی ہوا میں کی جاتی ہیں اور چاہیں تو کمرے میں بھی مگر چونکہ چھت موجود ہے تو تم یہ مشق چھت پر جا کر کرو گے..


صبح کی نماز سے قبل یا بعد از نماز زمین پر یوگا کے اسن میں التی پالتی مار کر بیٹھ کر... 


شمال کی طرف منہ کرکے ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس کھینچتے رہو..


جب مزید کھینچنے کی گنجائش نہ ہو تو سانس کو سینے میں قید کرلو..


جتنی آہستگی سے سانس کھینچا تھا..


ایسی ہی آہستگی سے سانس روکے رکھو...


جب مزید روکنا دشوار ہو تو آہستہ آہستہ سانس ناک کے ذریعے خارج کرو یہ ہوا ایک چکر...


اب تھوڑی دیر سستا لو اور دوبارہ یہ عمل کرو اسی طریقے سے پانچ چکر پورے کرلو...


جب پانچ چکر سانس کے پورے ہوجائیں اب آنکھیں بند کرکے تمام تر توجہ دل کی طرف مبذول کرلو اور یہ تصور کرو 


کہ میرا دل نور اور روشنی ہے اور دل سے روشنی اور نور نکل کر میرے پورے جسم اور خون میں گردش کر رہا ہے اور میرے دل سے اور جسم کے ہر زرے سے نور پھوٹ رہا ہے اور ہرطرف پھیل رہا ہے اندازاً یہ مشق آدھا گھنٹہ کرو..


اس سے تمھاری ذہنی صلاحیتیں اور خوابیدہ قوتیں بیدار ہونا شروع ہوجائینگی...


اس سے بے شمار نفسیاتی بیماریاں بھی رفع ہوجاتی ہیں..


اور سب سے بڑھ کر اہم اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مشق سے انسان کے اندر مضبوط قوت ارادی بیدار ہوجاتی ہے..


جس کے بل بوتے پرانسان اپنی بہت سے بری عادات‘ جنسی کمزوری‘ نشے کی عادت پر قابو پالیتا ہے..


سانس کی مشقیں جسمانی بیماریوں کیلئے تریاق ثابت ہوتی ہیں معدے کے مختلف امراض میں یہ مشقیں جادوئی مانند اثر کرتی ہیں..


سانس کی مشقوں سے خون میں سرخ و سفید ذرات کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو کہ حسن کیلئے بنیاد ہے..


ان مشقوں سے دماغ بے حد طاقتور ہوجاتا ہے‘ قوت حافظہ یادداشت بے حد تیز ہوجاتی ہے..


غرض اتنے ان گنت اور لامحدود فوائد ہیں جو بیان نہیں کئے جا سکتے..


اب تم جائو اور صبح کے وقت میں یہ مشق اپنی نگرانی میں کروائوں گا..


کل شام کو جب ائو گے تو میں تمھیں شمع بینی کی مشق بتائوں گا جو تمھیں رات میں کرنی ہے..


ان دو مشقوں سے تمھارے اندر موجود خفیہ طاقتیں بیدار ہوجائیں گی..


اور تم اپنے خیالات کو مرتکز کرنا سیکھ جائو گے..


قدرت نے تمھیں ٹیلی پیتھی کی وت سے نوازا ہے تمھیں بس اسے استعمال کرنا سیکھنا ہے..


ان مشقوں کے ساتھ تمھیں سماعت اور نظر کی بھی مشقیں بتائوں گا ان سب کی تفصیلات اب کل..


مجھے بھی ضروری کام سے جانا ہے اس لئے اج کی نشست سمیٹتے ہیں..


بزرگ یہ کہ کر اٹھ گئے اور میں ان کے ہمراہ قدم بڑھاتا کمرے سے باہر اگیا..


اگلے دن صبح میں جلدی اٹھ گیا اور نہا دھو کر کمرے سے باہر اگیا اور لان میں ٹہلنے لگا..


کچھ دیر میں بزرگ اندر سے نمودار ہوئے اور ان کے ساتھ میں چھت پر اگیا..


ان کی زیر نگرانی میں نے مشق شروع کردی..


مشق مکمل ہونے کے بعد میں انکے ساتھ ہی انکی لائبریری میں چلا گیا اور رجسٹر سنبھال کر شمع بینی کے بارے میں جاننے کے لئے تیار ہوگیا..


بزرگ نے چند لمحوں بعد بولنا شروع کیا..


شمع بینی کی مشق سے قبل بلور بینی و دیگر مشقیں ضروری ہوتی ہیں..


ان مشقوں کی عادت ڈالے بناء شمع بینی شروع کرنے سے..


دل و دماغ اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے..


اس لئے کسی صورت بناء استاد کے یہ نہیں کرنی چاہئیں..


مگر تمھاری رہنمائی کے لئے میں موجود ہوں اس لئے تمھیں شمع بینی کروائوں گا..


شمع بینی کرتے وقت نشست آرام دہ اور نشست گاہ پرسکون ہونی چاہیے...


کمر، گردن اور پشت ایک سیدھ میں ہونی چاہیے..


نہ کمر میں کجی ہو، نہ سینہ باہر نکلا ہو..


جسم کے کسی حصے میں کھنچاوٹ اور تناؤ نہیں ہونا چاہیے...


ورنہ ذہن کبھی پرسکون نہ ہوسکے گا...


شمع موم بتی کی شکل میں ہونی چاہیے...


مجبوری کی صورت میں دِیا استعمال کیا جاسکتا ہے جس میں تیل مثلاً سرسوں کا تیل، چنبیلی کا تیل، تل کا تیل یا کسی نباتاتی تیل کا استعمال کیا جاسکتا ہے...


بلب خواہ کتنی ہی کم طاقت کا کیوں نہ ہو شمع بینی کے لیے موزوں نہیں ہے...


موم بتی آنکھوں سے دو سوا دو فٹ کے فاصلے پر نگاہوں کے سامنے کسی قدر اوپر، تاکہ گردن اٹھی رہے ہونی چاہیے...


صبح والی سانس کی مشق جو بتائی تھی وہ دوبارہ شمع بینی سے پہلے کرنی ہے اس کے چکر مکمل کرنے کے بعد..


شمع کی لو کے کسی حصے پر دونوں نظریں جمادیں اور معمول کے مطابق ذہن کی پوری قوت بھی اسی ایک نقطے پر مرکوز کردیں..


تصور یہ ہو کہ اس نقطے میں نور، حسن اور رنگ کی عجیب و غریب دنیا چھپی ہوئی ہے اور عنقریب شمع کی لو کے پردے کو ہٹا کر وہ دنیا آپ کے سامنے بے نقاب ہونے والی ہے...


ابتدا میں آنکھوں سے پانی جاری ہوجایا کرے گا ممکن ہے ہلکا ہلکا دردِ سر بھی محسوس ہو یا آنکھیں تھک جائیں...


لیکن یہ ساری شکایتیں عارضی ہوتی ہیں اور ان ہی شکایتوں کے ازالے کے لیے استاد کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے..


یہ بھی بارہا ہوگا کہ بار بار پلکیں جھپک جائیں گی، توجہ ادھر ادھر بھٹک جائے گی...


یہ بھی ہوگا کہ لاشعور ابتدا میں زبردست مزاحمت کرے گا، اس کی مزاحمت و بغاوت طرح طرح کے روپ دھارے گی..


مثلاً ناغے، مشق سے جی اچاٹ ہوجانا، یہ وہم بھی بار بار ستائے گا کہ یہ سب بیکار کی مشقیں ہیں..


سوائے وقت ضائع کرنے کے ان سے کوئی نتیجہ نہیں، مایوسی اور بیزاری کے دورے بھی پڑیں گے...


مشقیں کرتے ہوئے بے وجہ کا خوف بھی محسوس ہوگا...


شمع کی لو میں طرح طرح کی شکلیں بھی نظر آسکتی ہیں..


بعض ان میں ڈراؤنی بھی ہوسکتی ہیں..


ان مشقوں کے ذریعے نفس کا فاسد مادہ، دبے دبائے گندے جذبات، گھٹے ہوئے ہیجان اور چھپے ہوئے پیچاک (Complex) اندر سے نکل کر باہر آتے ہیں..


بلاشبہ یہ ایک صحت مندانہ طریقہ کار ہے لیکن ابتدا میں یہ تکلیف دہ بھی ثابت ہوتا ہے...


شمع بینی کی مشق پندرہ بیس سیکنڈ سے شروع کرکے رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ اس طرح کہ طبیعت پر بار نہ ہو، اس کی مدت ایک گھنٹے تک بڑھا دینی چاہیے...


ان تمام مشقوں کے لیے سب سے زیادہ موزوں رات کا وقت ہے یعنی سونے سے قبل۔


اج رات کو میں تمھیں شمع بینی کی مشق کروائوں گا..


اس کے لئے میں نے الگ کمرے میں انتظام کر دیا ہے..


صبح اور شام کی ان دو مشقوں کو تم نے جاری رکھنا ہے بلا ناغہ..


ساتھ میں تمھیں سمعی اور بصری مشقیں بھی کرواتا رہوں گا..


یہ بہت طویل ریاضت ہے اور تمھاری محنت پر ہے..


چونکہ تم میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے اسلئے چند مہینوں میں ہی منزل پا لو گے..


اب جائو ارام کرو اور ہلکی پھلکی خوراک کو معمول بنائو..


میں اٹھا اور سلام کر کے لائبریری سے باہر اگیا..


وقت گزرتا رہا سانس کی, شمع بینی کی اور سمعی و بصری مشقوں نے مجھ میں ناقابل بیان فائدہ دیا تھا..


اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچ گیا مگر میں اب بھی ٹیلی پیتھی کی صلاحیت سے محروم تھا..


پروفیسر جنھیں میں بابا کہنے لگا تھا چند دن پہلے تک زندگی کی اخری سانس تک میری رہنمائی کرتے رہے..


مگر کوئی کمی تھی کچھ ایسا ضرور تھا جو میری منزل مجھے نہیں مل سکی..


سوچتا ہوں دنیا میں ایسے پرخلوص لوگ بھی ہوتے ہیں..


بابا نے اخری سانس تک زندگی جیسے میرے لئے وقف کر دی تھی..


انکی وفات کے چند دن بعد انکی اہلیہ بھی دنیا سے منہ موڑ گئیں..


وصیت کے مطابق ان کا گھر اور بینک بیلنس جو چند لاکھ روپے تھا میرے نام منتقل ہوگیا..


میں ایک جگہ ا کر رک گیا تھا اس سے اگے بابا بھی میری رہنمائی کرنے سے قاصر تھے..


کسی بھی شخص کی نظروں سے نظریں ملانے پر اب میں اس قابل تھا کہ اس کے خیالات جان سکتا تھا..


مگر جیسے ہیں انکھوں سے رابطہ ختم ہوتا میرا اگلے شخص کی سوچ اور خیالات سے بھی رابطہ منقطع ہوجاتا تھا...


میں اب بھی منزل سےبہت دور تھا..


بابا کا کہنا تھا بناء نظروں سے نظریں ملائے لامحدود فاصلے سے اگلے شخص کے خیالات جاننا..


پھر ان خیالات کو اپنے قابو میں کرنا ممکن ہے مگر میں کیوں نہیں کر پارہا تمام تر مشقوں کے باوجود..


اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا...


اتنے بڑے گھر میں صرف امی جان تھیں جو تنہائی کے عذاب میں تھیں..


میں بہت عجیب مزاج کا بن چکا تھا میرا زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا تھا..


اسکے علاوہ دنیا میں مجھے کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی..


بابا اور ان کی اہلیہ کی وفات کے چند دن بعد ہی مجھے دوسرا صدمہ پہنچا..


عالیہ باجی کی والدہ بیمار تھیں بیثے کے ساتھ ہسپتال جاتے ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ دونوں دنیا سے گزر گئے..


عالیہ باجی کی دنیا اندھیر ہوگئی میں انھیں بڑی بہن کی طرح چاہتا تھا..


امی کی تنہائی دور کرنے کے لئے میں انھیں اپنے گھر لے ایا دنیا میں اب ان کا ویسے ہی کوئی نہیں تھا..


امی کی تنہائی تو دور ہوگئی مگر میرے اندر جیسے کوئی بے چینی سی تھی کوئی خلاء سا جو میرے وجود کا حصہ تھا..


میں گریجویشن کر چکا تھا مگر اگے تعلیم جاری رکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا ناں ہی دل چاہتا تھا..


عجیب سی بے کلی تھی جو مجھے اندر ہی اندر کھا رہی تھی..


ایک دن میں لائبریری میں بیٹھا ایک کتاب کے مطالعےمیں مصروف تھا کہ مجھے دروازے پر اہٹ سنائی دی..


نظر اٹھا کر دیکھا تو عالیہ باجی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوچکی تھیں..


انھوں نے جدید تراش خراش کا لباس پہن رکھا تھا اور ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن تھے..


میں نے پہلی بار اتنے عرصے بعد انھیں غور سے دیکھا..


حیرت انگیز طور پر اتنی عمر ہونے کے باوجود انکی خوبصورتی اور رنگ و روپ میں اضافہ ہوگیا تھا..


اتنی محدود تنخواہ میں یہ لباس یہ سونے کے زیور اور رنگ و روپ کو برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا..


میرے ذہن میں وہی عالیہ باجی تھیں جنھیں مقدس منزل پر دیکھا تھا..


اتنے برسوں میں میرا ان سے چند بار ہی سامنا ہوا تھا وہ امی کے پاس اتی جاتی رہتی تھیں مگر میری مصروفیات اور تنہائی پسندی کے باعث بہت کم سامنا ہوا تھا..


اج انھیں غور سے دیکھ رہا تھا تو بہت کچھ بدلا ہوا محسوس ہورہا تھا..


میں مشقوں کے سلسلے میں ہر بات امی جان سے شئیر کرتا تھا یقینی بات ہے عالیہ باجی بھی ہر بات سے اگاہ تھیں..


وہ چلتے ہوئے قریب ائیں اور میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئیں..


میں نے ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے نظریں جھکا لیں..


نقطہ بینی, شمع بینی اورسورج بینی سے میری انکھوں میں مقناطیسی چمک پیدا ہوچکی تھی..


کوئی بھی شخص مجھ سے چند لمحے کے لئے بھی نظریں نہیں ملا پاتا تھا..


میں نے میز پر پڑا سیاہ چشمہ اٹھا کر پہن لیا..


علی میں کئی دن سے تمھارے ساتھ ہوں مجھے لگتا ہے تمھیں کوئی پریشانی ہے..عالیہ باجی نے کہا..


نہیں باجی پریشانی کیا ہونی ہے..


میں اتنے برس تک ایک ایسے سفر میں رہا جس کی منزل نہیں مل سکی اب تک..


میری انکھوں میں اتنا اثر ہے کہ میں کچھ دیر تک اگلے شخص کو اپنی انکھوں کے سحر میں جکڑ کر اسکے خیالات جان سکتا ہوں..


مگر جیسے ہی نظر ہٹتی ہے ویسے ہی اگلے شخص سے میرا دماغی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے..


میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کس طرح اپنی سوچ کی لہروں سے اگلے شخص کے خیالات جان سکتا ہوں اور ان پر قابو پا سکتا ہوں..


میری اتنے برس کی محنت ادھوری ہے یہ بات مجھے پریشان کرتی ہے اور میں اس کیفیت سے باہر نہیں اپارہا ہوں..


میں نے الجھتے ہوئے عالیہ باجی سے اپنی پریشانی بیان کی..


یقینا ان کے پاس میری کسی بات کا جواب نہیں تھا...


مجھے تسلی دے کر اور باتیں کر کے وہ لائبریری سے رخصت ہوگئیں..


میرے ذہن میں ہلچل مچی ہوئی تھی...


میں جانتا تھا انکی تنخواہ اب بھی محدود ہے پھر یہ سونے کے کنگن اور قیمتی کپڑے.. 


میں نے اس راز سے پردہ اٹھانے کی ٹھان لی...


جو علم میرے پاس تھا اس سے کام لے کر میں حقیقت جان سکتا تھا..


میں نے سوچ لیا تھا کہ کیا کرنا ہے اب مجھے صرف رات کا انتظار تھا


مجھے علم تھا عالیہ باجی رات کو چائے پی کر سونے کی عادی ہیں..


میں نے دن میں انتظام کر لیا تھا عالیہ باجی سے سچ اگلوانے کا..


مجھے یقین تھا جو پلان میرے ذہن میں ہے اس طریقہ کار پر عمل کر کے میں سچائی جان سکوں گا..


رات کا کھانا کھا کر میں نے عالیہ باجی سے کہا میں بھی چائے پیوں گا..


اپ چائے بنا کر میرے مشق والے کمرے میں لے ائیں کچھ باتیں بھی کریں گے..


امی جان نیند کی گولی کھا کر سونے کی عادی تھیں حسب معمول وہ اپنے کمرے میں جا چکی تھیں..


میں مشق والے کمرے میں اکر عالیہ باجی کا منتظر تھا..


کچھ دیر بعد عالیہ باجی کمرے میں داخل ہوئیں تو ان کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں دو کپ رکھے تھے..


مشق والا کمرہ خالی تھا صرف ایک سنگل فوم کا گدہ موجود تھا جب میں مشقوں سے تھک جاتا تھا تو وہیں سوتا تھا..


عالیہ باجی چائے رکھ کر میرے سامنے بیٹھ گئیں..


پلان کے مطابق میں نے چائے چکھ کر چینی کم ہونے کی شکایت کی اور وہ اٹھ کر چینی لینے چلی گئیں..


میں نے جلدی سے جیب میں موجود پڑیا نکالی جس میں نیند کی گولیوں کا سفوف موجود تھا..


یہ گولی اعصاب کو سکون دیتی تھی اور تیز خواب اورتھی..


میں نے چٹکی بھر سفوف عالیہ باجی کے کپ میں ملا دیا..


کچھ دیر میں وہ واپس ائیں تو چینی اور چمچ ان کے ہاتھ میں تھے..


ہم دونوں نے چائے ختم کی اور بہت دیر تک باتیں کرتے رہے..


عالیہ باجی کی انکھوں سے لگ رہا تھا ان کے حواس پر نیند سوار ہورہی تھی..


میں نے انھیں کہا باجی میں ہپناٹزم کو ازمانا چاہ رہا ہوں مجھے اجازت دیں اپ کو معمول بنا سکوں..


میں جانتا تھا باجی ان چیزوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتیں..


پہلے تو انھوں نے انکار کیا پھر میرے اصرار پر راضی ہوگئیں..


ہپناٹزم میں بنیادی شرط معمول کی رضامندی ہوتی ہے..


جو لوگ ہپناٹزم میں کمال پر پہنچ جاتے ہیں وہ رضامندی کے بناء بھی اگلے شخص کو معمول بنا سکتے ہیں..


میرا یہ پہلا تجربہ تھا میں مشقیں تو کر چکا تھا میری انکھوں میں مقناطیسی چمک بھی تھی جو کسی کو بھی اپنے بس میں کر سکتی تھی..


مگر باقاعدہ کسی کو معمول بنانے کی یہ میری پہلی کوشش تھی مجھے اندازہ نہیں تھا میں کامیاب ہوسکوں گا یا نہیں..


اسی لئے میں نے انھیں اعصاب کو سکون دینے اور نیند لانے والی گولی دی تھی تاکہ انکا شعور مزاحمت ناں کر سکے..


میری ہدایت پر عالیہ باجی گدے پر میرے سامنے بیٹھ گئیں اور جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا..


میں نے ان کی انکھوں میں دیکھنا شروع کیا..


انھوں نے گھبرا کر نظریں ہٹانے کی کوشش کی مگر میں نے سوچ کی قوت سے انھیں دیکھتے رہنے پر مجبور کیا..


اپ میری انکھوں میں دیکھتی رہیں گی...میں نے بھاری اور گھمبیر اواز میں ہدایات دینی شروع کیں..


میری انکھوں کے سوا اپ ہر چیز بھول جائیں..


میری انکھوں کے علاوہ اپ کو کچھ یاد نہیں رہے گا..


اپنے ارد گرد کے ماحول اور ہر سوچ کو دماغ سے نکال کر صرف میری انکھوں میں دیکھتی رہیں..


میں کچھ دیر تک انھیں معمول بننے کی ہدایت دیتا رہا..


جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ٹرانس میں اچکی ہیں تو میں نے انھیں لیٹنے کا حکم دیا...


اب اپ لیٹ جائیں مگر اپکی نظریں اور دماغ میں صرف میری انکھیں رہیں گی..


عالیہ باجی اگلے ہی لمحے لیٹ چکی تھیں...


مجھے یقین ہوچکا تھا وہ ٹرانس میں اچکی ہیں پھر بھی تسلی کے لئے میں نے ان سے سوال جواب شروع کئے..


اب اپ میرے ہر سوال کا جواب دیں گی...


اپ کا نام کیا ہے...


انکی نیند میں ڈوبی اواز سنائی دی عالیہ..


نہیں اپ عالیہ نام بھول جائیں اپ کا نام کنول ہے..


ہاں میرا نام کنول ہے..عالیہ باجی کی اواز سنائی دی..


اپ کسی سے محبت کرتی ہیں..


عالیہ باجی کے جسم میں کسمساہٹ ہوئی..


میں سمجھ گیا ان کا لاشعور مزاحمت کر رہا ہے..


میں نےاپنا سوال دوہرایا میری بات کا جواب دیں اپ کسی سے محبت کرتی ہیں..


ہاں علی سے..


میں اپنی جگہ ساکت رہ گیا...


میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا عالیہ باجی...


میں نے ایک اور تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا..


اب اپ اٹھ کر بیٹھ جائیں اور میری انکھوں میں دیکھتی رہیں...


اگلے ہی لمحے وہ گدے پر بیٹھ چکی تھیں..


میں نے اپنی نظریں ان کی نظروں سے ملائیں اور انکے خیالات پڑھنے کی کوشش کی..


خیالات انسان کے ذہن میں مناظر کی طرح ہوتے ہیں..


جب اپ کسی بارے میں سوچتے ہیں تو وہ منظر کی طرح اپکے دماغ کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں..


انسانی ذہن قدرت کا شاہکار ہے ایک وقت میں ذہن میں بےشمار سوچیں اور خیالات ہوتے ہیں..


میں نے انکی انکھوں میں جھانکا تو وہ ہپناٹزم کے زیر اثر تھیں..


انکا دماغ سوچوں سے خالی تھا صرف میری نگاہوں کا تصور انکے دماغ پر حاوی تھا..


میں نے اپنےبارے میں انکے دماغ میں سوچ پیدا کی..


انکے دماغ کی اسکریں پر میرا چہرہ نمودار ہوا..


میں نے محبت کی سوچ پیدا کی..


انکے ذہن میں جیسے فلم سی چلنا شروع ہوگئی..


میرا بچپن..انکا ہمارے گھر انا..مجھے پڑھانا..بارش میں نہانا..مجھ پر بجلی کا گرنا..


انکے ذہن میں میرے بچپن سے جوانی تک کے مناظر نمودار ہوتے رہے..


اور میں حیرانگی سے ان کے دماغ کے پردے پر ابھرنے والی سوچوں کو پڑھتا رہا..


مجھے تجسس تھا کہ انکا رنگ و روپ, قیمتی کپڑے, سونے کے زیورات یہ سب کیسے اور کہاں سے ائے..


میں نے سونے کے کنگن کا خیال انکے دماغ میں پیدا کیا..


فورا ہی ذہن کے پردے پر کسی شخص کی شکل نمودار ہوئی..


انکی سوچ نے بتایا وہ کسی نئے پرائیویٹ اسکول کو جوائن کر چکی تھیں..


اس اسکول کا پرنسپل ان پر عاشق تھا جو ان کی ضروریات پوری کرتا تھا..


اج کل کے دور میں کوئی شخص بناء مفاد کے کسی کے کام نہیں اتا..


کجا یہ کہ وہ ان پر اتنا پیسہ لٹا رہا تھا..


 میں نے گہرائی میں ان کے دماغ کو کھنگالنا شروع کیا..


اگلے ہی لمحے مجھے زندگی کا سب سے بڑا شاک لگا..


انکی سوچ بتا رہی تھی کہ وہ پرنسپل پچپن ساٹھ برس کا ہے جس سے انکے تعلقات تھے..


میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا عالیہ باجی اس حد تک کسی کے ساتھ جا سکتی ہیں..


یقینا انھوں نے ساری زندگی تنہا گزاری تھی مگر تب بھی....


میں نے انکے دماغ کو مزید کریدا تو جیسے مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو..


میں انکے سامنے ساکت بیٹھا رہ گیا..


انسان بہت عجیب مخلوق ہے..


ہر شخص اوپر سے فرشتہ اور اندر سے کسی نہ کسی رنگ میں شیطان ضرور ہے..


نیکی اوربدی اخری سانس تک انسان کی زندگی کا حصہ رہتے ہیں..


کہیں چوری, کہیں ڈاکہ, کہیں ملاوٹ, کہیں دھوکے بازی, کہیں جھوٹ, کہیں فریب...


ہر شخص اپنے نفس کا غلام ہے اور جو نفس کا غلام نہ رہے اج کے دور میں ولی کہلانے کا حقدار ہے..


عالیہ باجی کو بھی میں اج تک فرشتہ سمجھتا ایا تھا..


ایسی پاک باز عورت جو اپنی جوانی اور جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے نیکی اور اچھائی کے راستے پر گامزن تھی..


یہ سب ان کا ظاہر تھا مگر باطن کچھ اور ہی کہانی سنا رہا تھا..


ان کا لاشعور بچپن سے جوانی تک کے قصے میرے سامنے کھول رہا تھا اور میں ان کے باطن کی غلاظت انکے ذہن کے پردے پر اپنی انکھوں سے دیکھ رہا تھا..


وہ مجھ سے وہ محبت کرتی تھیں مگر میں نے ہمیشہ انھیں بہن سمجھا اور کہا تھا..


اسی لفظ نے اج تک انھیں میری طرف بڑھنے سے روکے رکھا اور وہ کبھی اظہار نہ کر پائیں..


مجھے سمجھ نہیں ارہی تھی ان سے ہمدردی کروں غصہ کروں یا نفرت..


میرے سر میں درد ہونے لگا تھا مزید جاننے کا ناں مجھ میں حوصلہ تھا ناں ہی تجسس..


اور تجسس کے لئے باقی رہ کیا گیا تھا ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح پڑھ چکا تھا میں..


میں نے انھیں ہدایات دیں کہ لیٹ کر انکھیں بند کر کے سوجائیں اور ائندہ مجھ سے ہر قسم کی ہر بات شئیر کر لیا کریں گی کچھ نہیں چھپائیں گی..


جب نیند پوری کر کے اٹھیں تو اس واقعے کو بھول جائیں کہ میں نے انھیں معمول بنایا تھا..


صرف اتنا یاد رکھیں کہ چائے لے کر کمرے میں ائی تھیں اور باتیں کرتے کرتے وہیں سوگئی تھیں...


انھیں مکمل ہدایات دے کر میں نے وہیں سونے کے لئے چھوڑ دیا اور اپنے کمرے میں اگیا..


میں نے بھول جانے کا اس لئے بھی کہا تھا میں تجربہ کرنا چاہ رہا تھا کہ نیند مکمل کرنے کے بعد انھیں کچھ یاد رہتا ہے یا نہیں..


میرا سر بری طرح سے دکھ رہا تھا...


میں نے اپنے دماغ کو کنٹرول کیا اور تمام سوچیں ذہن سے نکال کر نیند پر فوکس کرنے لگا..


چند لمحے بعد میرا دماغ نیند میں ڈوب چکا تھا..


صبح ناشتہ معمول کے مطابق تھا عالیہ باجی کے چہرے پر کوئی ایسے تاثرات نہیں تھے کہ انھیں کچھ یاد ہے..


دن بھر میں اپنی مصروفیات میں مگن رہا مگر نہیں جانتا تھا..


میں نے ایک سنگین غلطی کردی ہے جس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں رات میں کمرے میں سونے کے لئے لیٹا ہوا تھا..


مگر اس سے پہلے ایک عجیب واقعہ ہوا جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا..


میں رات کا کھانا کھا کر باہر ٹہلنے جاتا تھا یہ برسوں سے میری عادت تھی..


اس رات بھی میں حسب معمول کھانا کھا کر باہر نکلا اور واک کرتے ہوئے مین روڈ پر اگیا جو سمامہ اور جوہر چورنگی کے درمیان ہے..


میرا رخ جوہر چورنگی کی طرف تھا اور میں چلتا جارہا تھا اچانک ایک صدا سنائی دی..


کھانا دے جا مولی کے نام پر....سب کی خیر...سب کا بھلا...


میں عام طور پرفقیروں اور بھیک مانگنے والوں کے سخت خلاف رہتا تھا کیونکہ اکثریت بہروپیوں کی ہوتی ہے..


مگر وہ صدا سن کر میں رک گیا اسکی اواز میں عجیب سا درد تھا..


میں نے اپنے بائیں طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو سروس روڈ سے ہٹ کر ایک معذور فقیر نظر ایا..


میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس کے پاس جاکر پیسے اسکی طرف بڑھائے مگر اس نے پیسے لینے سے انکار کردیا اور کھانا کھلانے پر اصرار کیا..


میرے لئے بہت مشکل تھا کہ میں جوہر چورنگی تک جا کر اس کے لئے کھانا لاتا..


عام طور پر میں واک کرتے ہوئے اتنا دور نہیں اتا تھا مگر اج غیر ارادی طور پر چلتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا تھا..


شاید عالیہ باجی کے خیالوں میں الجھا ہوا تھا رات سے مگر اب بھی یہاں سے جوہر چورنگی کافی دور تھی..


پہلے تو دل کیا اس فقیر کو اس کے حال پر چھوڑ دوں پھر جانے کیا سوچ کر میں نے قدم بڑھا دئیے..


چورنگی سے سالن روٹی پارسل کرواتے ہوئے خیال ایا کہ کھانا تو لے رہا ہوں پانی پتہ نہیں اسکے پاس ہو ناں ہو یہ سوچ کر پانی کی بوتل بھی خرید لی..


میں اب چلتا ہوا اس فقیر کے پاس جارہا تھا اور خود پر حیران ہورہا تھا..


مجھ میں ہمدردی کا مادہ ضرور تھا مگر اتنا بھی نہیں تھا کہ میں کسی فقیر کی خاطر اتنا سوچتا اور کرتا..


یہ سب کچھ میرے مزاج کے خلاف تھا...


میں کچھ دیر میں فقیر کے پاس پہنچا اور سالن روٹی کے ساتھ پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھا دی..


لادے...فقیر نے اس لحجے میں کہا جیسے میں نہیں وہ کھانا لے کر مجھ پر احسان کر رہا ہے..


مجھے غصہ تو بہت ایا مگر میں نے سوچا نیکی کر ہی لی ہے تو برداشت کرلو..


میں نے اسے جواب دئے بناء گھر کی طرف رخ پھیرا ہی تھا کہ فقیر نے پکارا..


ہوا میں اڑنا چاہتا ہے بچہ...

پر نہیں اگے ابھی تیرے..

اڑ جائے گا..

مگر دور جانا پڑے گا..

بہت دور..

بہت دوووور...

جائے گا تو وقت پر اپنے..

جا چلاجا اب..


میں اس فقیر کی باتوں کو سمجھ نہیں سکا اور اسے دیوانے کی بے ربط باتیں سمجھ کر گھر کی طرف قدم بڑھا دئیے..

 

گھر اکر میں سونے کے لئے کمرے میں اگیا..


میں بستر پر اپنی سوچوں میں گم تھا کہ عالیہ باجی شب خوابی کے لباس میں کمرے میں داخل ہوئیں اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا...

Read More......

All Episodes Links


Post a Comment

0Comments

Write here your review about post.

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !